ابھی ابھی جو فلک پار سے گزارے گئے
ابھی ابھی جو فلک پار سے گزارے گئے تمہاری آنکھ سے ایسے کئی ستارے گئے تمہارے ہونٹ سے نکلے ہر ایک لفظ کی خیر کہ جیسے ان پہ گلابوں کے پھول وارے گئے کسی نے نیند میں آ کر نہیں چھوا ہم کو یہ بال خواب میں رہ کر نہیں سنوارے گئے پہل پہل تو وہ ہونٹوں سے دیکھے جاتے رہے پھر اس کے بعد مری آنکھ ...