وسیم تاشف کی غزل

    ابھی ابھی جو فلک پار سے گزارے گئے

    ابھی ابھی جو فلک پار سے گزارے گئے تمہاری آنکھ سے ایسے کئی ستارے گئے تمہارے ہونٹ سے نکلے ہر ایک لفظ کی خیر کہ جیسے ان پہ گلابوں کے پھول وارے گئے کسی نے نیند میں آ کر نہیں چھوا ہم کو یہ بال خواب میں رہ کر نہیں سنوارے گئے پہل پہل تو وہ ہونٹوں سے دیکھے جاتے رہے پھر اس کے بعد مری آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    بھوکے جسموں کی خواہشوں کے لیے

    بھوکے جسموں کی خواہشوں کے لیے ہم ملے تھے ضرورتوں کے لیے جھانک لینا برا نہیں ہوتا اچھا ہوتا ہے کھڑکیوں کے لیے چار حصوں میں بٹ کے رہ جانا کتنا مشکل ہے آنگنوں کے لیے میری ہر نظم لڑکیوں پہ نثار میرا ہر شعر عورتوں کے لیے بھیگ جانا مجھے بھی آتا ہے ایک اعلان بارشوں کے لیے دھوبیوں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کہ خواب پریشان کی تسلی ہوئی

    نہیں کہ خواب پریشان کی تسلی ہوئی در و دوار سے انسان کی تسلی ہوئی تمام نام ہی ناموں سے ملتے جلتے تھے تمہارے نام سے مجھ کان کی تسلی ہوئی اگرچہ کمروں میں اے سی لگے ہوئے تھے وہاں مگر جو پیڑ سے مہمان کی تسلی ہوئی یہ کب سے میز پہ خالی دھرا ہوا تھا وسیمؔ پھر ایک پھول سے گلدان کی تسلی ...

    مزید پڑھیے

    نماز لڑکی محبت خدا ضروری ہے

    نماز لڑکی محبت خدا ضروری ہے کسی بھی چیز کا نشہ بڑا ضروری ہے بہت ضروری ہے اس کا ہر ایک پل ہنسنا مجھ ایسے حبس زدہ کو ہوا ضروری ہے تمہارے واسطے رکھا ہے ٹال کر خود کو اب اس کے بعد تمہیں اور کیا ضروری ہے اب اس کی اور مری چاہ میں تضاد ہے دوست مجھے چراغ اسے آئنہ ضروری ہے جدائی اتنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2