وسیم تاشف کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    ڈر رہا ہوں نہ خوف کھا رہا ہوں

    ڈر رہا ہوں نہ خوف کھا رہا ہوں بے سبب بات کو بڑھا رہا ہوں اس کی خوشبو پہن رہا ہوں کبھی کبھی آواز میں نہا رہا ہوں پھول تک اس کو دے نہیں سکتا پھر ہرے باغ کیوں دکھا رہا ہوں کر رہا ہوں میں بات ایک سے اور دوسرے شخص کو سنا رہا ہوں بے تحاشا دکھائی دے وہ مجھے ہر طرف آئنے لگا رہا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا

    یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا زمیں نے حوصلہ رکھا ہوا تھا پرندوں سے ہماری دوستی تھی شجر سے واسطہ رکھا ہوا تھا تبھی ہم جی رہے تھے خوش دلی سے کہ تم نے رابطہ رکھا ہوا تھا بظاہر لگ رہی تھی اینٹ لیکن سڑک پر حادثہ رکھا ہوا تھا کسی نے گھر بڑے رکھے ہوئے تھے کسی نے دل بڑا رکھا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر افسردگی محسوس کی

    اس قدر افسردگی محسوس کی میں نے جب اس کی کمی محسوس کی رات میں سویا تھا دریا کے قریب خواب میں اک جل پری محسوس کی اس کے آنے کا یقیں بڑھنے لگا فرش دل پر گھاس اگی محسوس کی آج پھر وہ در کھلا تھا دھیان میں اور اک دیوار سی محسوس کی وقت کا کرنے لگے ہم احترام ہر محبت آخری محسوس کی موت جس ...

    مزید پڑھیے

    اچھا لگ جائے کیا برا لگ جائے

    اچھا لگ جائے کیا برا لگ جائے اس کی قربت میں خوف سا لگ جائے بس وہ اک سرسری نظر ڈالے اور بیمار کو شفا لگ جائے اس کا انکار ایسے لگتا ہے جیسے پاؤں میں کانٹا لگ جائے دھند میں ہاتھ چھوڑنے والے تجھ کو موسم کی بد دعا لگ جائے کیسے اس کا وجود ثابت ہو ملحدوں کو اگر خدا لگ جائے روز اک باغ ...

    مزید پڑھیے

    بعض اوقات فراغت میں اک ایسا لمحہ آتا ہے

    بعض اوقات فراغت میں اک ایسا لمحہ آتا ہے جس میں ہم ایسوں کو اچھا خاصا رونا آتا ہے سب اس شخص سے مل کر بالکل تازہ دم ہو جاتے ہیں پھر اس دن تصویر میں سب کا چہرہ اچھا آتا ہے باغ سے پھول چرانے والی لڑکی کو یہ کیا معلوم اس کے قدموں کی ہر چاپ پہ پھول کو کھلنا آتا ہے ہم یہ بات بڑے بوڑھوں ...

    مزید پڑھیے

تمام