وسیم تاشف کی غزل

    ڈر رہا ہوں نہ خوف کھا رہا ہوں

    ڈر رہا ہوں نہ خوف کھا رہا ہوں بے سبب بات کو بڑھا رہا ہوں اس کی خوشبو پہن رہا ہوں کبھی کبھی آواز میں نہا رہا ہوں پھول تک اس کو دے نہیں سکتا پھر ہرے باغ کیوں دکھا رہا ہوں کر رہا ہوں میں بات ایک سے اور دوسرے شخص کو سنا رہا ہوں بے تحاشا دکھائی دے وہ مجھے ہر طرف آئنے لگا رہا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا

    یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا زمیں نے حوصلہ رکھا ہوا تھا پرندوں سے ہماری دوستی تھی شجر سے واسطہ رکھا ہوا تھا تبھی ہم جی رہے تھے خوش دلی سے کہ تم نے رابطہ رکھا ہوا تھا بظاہر لگ رہی تھی اینٹ لیکن سڑک پر حادثہ رکھا ہوا تھا کسی نے گھر بڑے رکھے ہوئے تھے کسی نے دل بڑا رکھا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر افسردگی محسوس کی

    اس قدر افسردگی محسوس کی میں نے جب اس کی کمی محسوس کی رات میں سویا تھا دریا کے قریب خواب میں اک جل پری محسوس کی اس کے آنے کا یقیں بڑھنے لگا فرش دل پر گھاس اگی محسوس کی آج پھر وہ در کھلا تھا دھیان میں اور اک دیوار سی محسوس کی وقت کا کرنے لگے ہم احترام ہر محبت آخری محسوس کی موت جس ...

    مزید پڑھیے

    اچھا لگ جائے کیا برا لگ جائے

    اچھا لگ جائے کیا برا لگ جائے اس کی قربت میں خوف سا لگ جائے بس وہ اک سرسری نظر ڈالے اور بیمار کو شفا لگ جائے اس کا انکار ایسے لگتا ہے جیسے پاؤں میں کانٹا لگ جائے دھند میں ہاتھ چھوڑنے والے تجھ کو موسم کی بد دعا لگ جائے کیسے اس کا وجود ثابت ہو ملحدوں کو اگر خدا لگ جائے روز اک باغ ...

    مزید پڑھیے

    بعض اوقات فراغت میں اک ایسا لمحہ آتا ہے

    بعض اوقات فراغت میں اک ایسا لمحہ آتا ہے جس میں ہم ایسوں کو اچھا خاصا رونا آتا ہے سب اس شخص سے مل کر بالکل تازہ دم ہو جاتے ہیں پھر اس دن تصویر میں سب کا چہرہ اچھا آتا ہے باغ سے پھول چرانے والی لڑکی کو یہ کیا معلوم اس کے قدموں کی ہر چاپ پہ پھول کو کھلنا آتا ہے ہم یہ بات بڑے بوڑھوں ...

    مزید پڑھیے

    آوازۂ خیال کہیں گونجتا ہوا

    آوازۂ خیال کہیں گونجتا ہوا اور اس پہ سارا صحن سخن جاگتا ہوا دست دعا بلند ہوا تھا یہیں کہیں اپنے لیے خدا سے تجھے مانگتا ہوا آخر میں تھک کے بیٹھ گیا خشک گھاس پر پھولوں کے درمیان تجھے ڈھونڈھتا ہوا حیرت ہماری آنکھ کو للکارتی ہوئی منظر درون خواب کوئی دوڑتا ہوا لوگوں کے ساتھ صف ...

    مزید پڑھیے

    سو جاؤں پر کیسے سویا جا سکتا ہے

    سو جاؤں پر کیسے سویا جا سکتا ہے اس کو بند آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے پانی پر تصویر بنائی جا سکتی ہے اس کا نام ہوا پر لکھا جا سکتا ہے اب میں جتنی چاہوں خاک اڑا سکتا ہوں جتنا چاہوں اتنا رویا جا سکتا ہے سادہ دل دیہاتی تھا سو مان گیا میں حالانکہ اس گھر تک رکشا جا سکتا ہے کیا ہم پہلے ...

    مزید پڑھیے

    اپنا اپنا سمے بتا رہے ہیں

    اپنا اپنا سمے بتا رہے ہیں ہم تعلق کہاں نبھا رہے ہیں وہ بھی سب آپ کا دیا ہوا تھا یہ بھی ہے آپ کا جو کھا رہے ہیں سو رہے ہیں کسی کے پہلو میں اور ترا خواب گنگنا رہے ہیں اس کے چہرے سے صبح اٹھائی ہے اس کی آنکھوں سے شب چرا رہے ہیں داد وہ دے نہیں رہے ہیں مگر میرے شعروں سے حظ اٹھا رہے ...

    مزید پڑھیے

    تمناؤں میں الجھے رہ گئے ہیں

    تمناؤں میں الجھے رہ گئے ہیں ہمارے بچے بوڑھے رہ گئے ہیں وہ آنکھیں کتنا آگے جا چکی ہیں سمندر کتنا پیچھے رہ گئے ہیں ابھی تنہا وہ گزری ہے یہاں سے ہزاروں دل دھڑکتے رہ گئے ہیں جنہیں بانہوں میں بھر کر سو رہی ہو بہت اچھے وہ تکیے رہ گئے ہیں بظاہر اک نیا پن آ چکا ہے مگر یہ دل پرانے رہ ...

    مزید پڑھیے

    اس کی تصویر کیا لگی ہوئی ہے

    اس کی تصویر کیا لگی ہوئی ہے پورے کمرے میں روشنی ہوئی ہے کچھ بھی ترتیب میں نہیں تھا یہاں اس کے آنے سے بہتری ہوئی ہے دل کسی اور جا اڑا ہوا ہے روح کسی اور میں پھنسی ہوئی ہے کیسے کہہ دوں میں حال دل اس سے وہ مرے سامنے بڑی ہوئی ہے جیت جاتی ہے مجھ سے باتوں میں بڑے اسکول کی پڑھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2