وقاص عزیز کی غزل

    آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے

    آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے عشق والوں کی کہاں چیخ سنائی دی ہے رات کی شاخ ہلی اور گرے پیلے پھول درد کے پیڑ نے یوں ہم کو کمائی دی ہے شور اتنا کہ سنائی نہ دیا تھا کچھ بھی آنکھ کھولی ہے تو آواز دکھائی دی ہے اب نئے وصل کی صورت ہے نکلنے والی ہجر نے میرے تجسس کو رسائی دی ہے دن کی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسے تیرے بدن کا یہاں نشاں کھلے گا

    کچھ ایسے تیرے بدن کا یہاں نشاں کھلے گا کہ جس طرح سے سمندر میں بادباں کھلے گا یہ سوچتے ہی مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے مرا نشان کہانی میں کب کہاں کھلے گا گزرتے وقت کسی کو خبر نہیں تھی یہاں کہ ایک دم سے دلوں پر یہ خاک داں کھلے گا میں دائیں بائیں کسی اور سمت بھی دیکھوں کسے خبر کہ کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    میں دیواروں سے باتیں کر رہا تھا

    میں دیواروں سے باتیں کر رہا تھا مرے پہلو میں جلتا اک دیا تھا مرے پاؤں کہاں الٹے پڑیں گے مری آنکھوں میں ان کا نقش پا تھا محبت کی کہانی میں نے لکھی وگرنہ یہ تو بس اک واقعہ تھا مرے ہونٹوں سے چپکی جا رہیں تھیں ان آنکھوں کا انوکھا ذائقہ تھا ہمارے مسئلے کا یہ تھا باعث ہمارے ساتھ دل ...

    مزید پڑھیے

    مری خموشی کو بھی اک صدا سمجھتے رہے

    مری خموشی کو بھی اک صدا سمجھتے رہے میں کیا تھا اور مجھے لوگ کیا سمجھتے رہے ہماری نسل کو عجلت نے نا مراد کیا ذرا سے شور کو یہ دیر پا سمجھتے رہے یہ دوست میرے مجھے آج تک نہ جان سکے میں ایک درد تھا لیکن دوا سمجھتے رہے دکھائی دیتا تھا یہ شہر میری آنکھوں سے یہاں کے لوگ مجھے آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    ہے اختلاف ضروری تمہیں پتا نہیں ہے

    ہے اختلاف ضروری تمہیں پتا نہیں ہے چراغ کیسے جلے گا جہاں ہوا نہیں ہے تمہارے ہاتھ چھڑانے سے رک گیا ہے سفر یہ دھوپ چھاؤں مسافر کا مسئلہ نہیں ہے تمہارے جانے سے بے لطف ہو گئی ہر شے کہ زہر کھا کے بھی دیکھا ہے ذائقہ نہیں ہے میں ڈھونڈ لایا ہوں جب اس کے جیسا دوجا شخص سو اب وہ کہنے لگا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2