وقار خان کی نظم

    گواہی

    میں محبت کے ستاروں سے نکلتا ہوا نور حق و ناحق کے لبادوں میں چھپا ایک شعور میرے ہی دم سے ہوا مسجد و مندر کا ظہور میں مسلمان و برہمن کے ارادوں کا فتور میں حیا زادی و خوش نین کے ہونٹوں کا سرور کسی مجبور طوائف کی نگاہوں کا قصور میری خواہش تھی کہ میں خود ہی زمیں پر جاؤں اور زمیں زاد کا ...

    مزید پڑھیے

    وہ عورت تھی

    خلا کی مشکلات اپنی جگہ قائم تھیں اور دنیا اجڑتی بھربھری بنجر زمینوں کی نشانی تھی ستارے سرخ تھے اور چاند سورج پر اندھیروں کا بسیرا تھا درختوں پر پرندوں کی جگہ ویرانیوں کے گھونسلے ہوتے زمیں کی کوکھ میں بس تھور تھا اور خار اگتے تھے ہوا کو سانس لینے میں بہت دشواریاں ہوتیں تو پھر اس ...

    مزید پڑھیے

    آرزوئے حیات

    اے آرزوئے حیات اب کی بار جان بھی چھوڑ تجھے خبر ہی نہیں کیسے دن گزرتے ہیں اے آرزوئے نفس اب معاف کر مجھ کو تجھے یہ علم نہیں کتنی مہنگی ہیں سانسیں کہ تو تو لفظ ہے بس ایک لفظ ادھ مردہ ترے خمیر کی مٹی کا رنگ لال گلال سلگتی آگ نے تجھ کو جنا ہے اور تو خود اک ایسی بانجھ ہے جس سے کوئی امید ...

    مزید پڑھیے