Wahab Danish

وہاب دانش

وہاب دانش کی غزل

    خاک کے پتلوں میں پتھر کے بدن کو واسطا

    خاک کے پتلوں میں پتھر کے بدن کو واسطا اس صنم خانے میں ساری عمر مجھ سے ہی پڑا جب سفر کی دھوپ میں مرجھا کے ہم دو پل رکے ایک تنہا پیڑ تھا میری طرح جلتا ہوا جنگلوں میں گھومتے پھرتے ہیں شہروں کے فقیہ کیا درختوں سے بھی چھن جائے گا عالم وجد کا نرم رو پانی میں پہروں ٹکٹکی باندھے ...

    مزید پڑھیے

    ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات

    ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات بڑھنے لگے زمیں کی طرف تیرگی کے ہات جنگل کھڑے ہیں بھید کے اور اجنبی شجر شاخیں نہیں صلیب کہ دشوار ہے نجات ہو کے کبھی اداس یہاں بیٹھتا تو تھا چل کے کسی درخت سے پوچھیں تو اس کی بات ہاتھوں میں گر نہیں تو نگاہوں کو دیجئے اس صاحب نصاب بدن سے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تھکاوٹوں سے بیٹھ کے سفر اتاریئے کہیں

    تھکاوٹوں سے بیٹھ کے سفر اتاریئے کہیں بلا سے گرم ریت ہو اگر نہ مل سکے زمیں کہو تو اس لباس میں تمہارے ساتھ میں چلوں غبار اوڑھ لوں گا میں بدن پہ آج کچھ نہیں بطوں کا غول اب یہاں اتر کے پا سکے گا کیا کھڑے ہو تم جہاں پہ اب وہ نرم جھیل تھی نہیں کھلے ہوئے مکان میں ادا بھی تیری خوب ...

    مزید پڑھیے

    کئی بھیانک کالی راتوں کے اندھیارے میں (ردیف .. ر)

    کئی بھیانک کالی راتوں کے اندھیارے میں تنہائی میں جلتی بتی گھر میں ہوئی اسیر کوئی اپنا بن دروازے دستک دے اک بار خاموشی کی پیٹھ پہ کھینچے سیدھی ایک لکیر سینے میں ٹوٹی ہر خواہش کی نازک ننھی نوک کجلائی آنکھوں کے آگے خوابوں کی تعبیر تن کا جوگی من کا سائل مانگے میٹھی نیند روٹی ...

    مزید پڑھیے