جی میں ہے اک دن جھوم کر اس شوخ کو سجدہ کروں
جی میں ہے اک دن جھوم کر اس شوخ کو سجدہ کروں سجدے سے پھر اللہ تک اک راستہ پیدا کروں بس ہو چکا اہل جہاں اب یہ تماشہ کب تلک کیا چشم ظاہر سے ملا کیا دیدۂ دل وا کروں ہاں ہاں وہ بازی گر سہی مٹی کا اک پیکر سہی تیری نظر سے ہم نشیں کیسے اسے دیکھا کروں جیسے کہیں ہے کچھ کمی تصویر بنتی ہی ...