Varis Kirmani

وارث کرمانی

وارث کرمانی کی غزل

    اجڑ کے گھر سے سر راہ آ کے بیٹھے ہیں

    اجڑ کے گھر سے سر راہ آ کے بیٹھے ہیں ہم اپنی ضد میں سبھی کچھ گنوا کے بیٹھے ہیں کہاں تک اپنی ہی پرچھائیوں سے بھاگیں گے یہ لوگ جو تری محفل میں آ کے بیٹھے ہیں اب آہ و زاریٔ غم خوار کا فریب کھلا یہ مہرباں بھی وہیں دل لگا کے بیٹھے ہیں عذاب حشر کا کیا ذکر ہم سے اے واعظ ہم اس بلا کو یہیں ...

    مزید پڑھیے

    بہت دنوں میں ہم ان سے جو ہم کلام ہوئے

    بہت دنوں میں ہم ان سے جو ہم کلام ہوئے دل و نظر ہمہ تن سجدہ و سلام ہوئے ہنوز جیسے مسیحا کی آمد آمد ہے اگرچہ عمر ہوئی زندگی تمام ہوئے شفق سی خیمۂ جاناں کی سمت باقی ہے تمام وادی و کہسار غرق شام ہوئے کئی گلے تھے جو شور جہاں میں ڈوب گئے کئی ستم تھے جو احسان بن کے عام ہوئے کسی طرف ...

    مزید پڑھیے

    اے صبا نکہت‌ گیسوۓ معنبر لانا

    اے صبا نکہت‌ گیسوۓ معنبر لانا کوئی تحفہ گل‌ و نسرین سے خوشتر لانا شبنمستان محبت کی حسیں راہوں سے خنکیٔ شبنم و نور مہ و اختر لانا جاں بہ لب ہیں ترے مشتاق سر راہ حیات دم عیسی و مئے لعل و گل تر لانا عشق ہو مست و غزلخوان و صراحی بر دوش زندگی تازہ و سرشار و معطر لانا در خور محفل و ...

    مزید پڑھیے

    جمال نسترنی رنگ و بوئے یاسمنی

    جمال نسترنی رنگ و بوئے یاسمنی گلوں نے سیکھ لیا تم سے ذوق پیرہنی زمانہ ساز نہ ہو گر بتوں کی سیم تنی تو عزم بت شکنی بھی ہے عین برہمنی سواد کوہ و بیاباں میں شام بے وطنی ہمیں لبھا کے کہاں لائے آہوئے ختنی ہزار رنگ میں پنہاں ہے آرزوئے حیات دعائے نیم شبی تا جنون کوہ کنی بنام دولت حسن ...

    مزید پڑھیے

    عاشق ہوئے تو عشق میں ہشیار کیوں نہ تھے

    عاشق ہوئے تو عشق میں ہشیار کیوں نہ تھے ہم ان کے مدح خواں سر بازار کیوں نہ تھے ہاں جب ستم کو عین کرم کہہ رہے تھے لوگ ہم بھی شریک گرمی گفتار کیوں نہ تھے جب چل رہا تھا وقت پہ جادو نگاہ کا اک ہم اسیر چشم فسوں کار کیوں نہ تھے اب کیا شہید ناز بنے پھر رہے ہیں لوگ مرنے کا شوق تھا تو سردار ...

    مزید پڑھیے

    قضا جو دے تو الٰہی ذرا بدل کے مجھے

    قضا جو دے تو الٰہی ذرا بدل کے مجھے ملے یہ جام انہی انکھڑیوں میں ڈھل کے مجھے میں اپنے دل کے سمندر سے تشنہ کام آیا پکارتی رہیں موجیں اچھل اچھل کے مجھے نگاہ جس کے لیے بے قرار رہتی تھی سزا ملی ہے اسی روشنی سے جل کے مجھے میں رہزنوں کو کہیں اور دیکھتا ہی رہا کسی نے لوٹ لیا پاس سے نکل ...

    مزید پڑھیے

    یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے

    یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے جو یقیں نہ ہو عمل پر تو نشاط کار کیا ہے بخدا نسیم گلشن تری وحشتوں کے صدقے یہ مزاج نامہ بر ہے تو مزاج یار کیا ہے وہ کرم نہ ہو ستم ہو کوئی بات کم سے کم ہو یہ ادائے بے نیازی مرے غم گسار کیا ہے یہ ہم اہل غم کی منزل ہے دبے قدم گزر جا کہ اجل یہاں کے فتنوں ...

    مزید پڑھیے

    آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے (ردیف .. ا)

    آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے جب دل حریف آتش قہر و عتاب تھا جاں دوستوں کی چارہ گری سے لبوں پہ تھی سر دشمنوں کی سنگ زنی سے عذاب تھا دامن سگان کوئے محبت سے تار تار چہرہ خراش دست جنوں سے خراب تھا واں اعتماد مشق سیاست کی حد نہ تھی یاں اعتبار‌ نالۂ دل بے حساب تھا ہر بات صوفیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا

    کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا وہ خاک جنوں میری آنکھوں سے لگا جانا اب تک کوئی چنگاری رہ رہ کے چمکتی ہے اے قافلۂ فردا یہ راکھ اڑا جانا ہے دشت تمنا میں اب شام کا سناٹا ہاں تیز قدم رکھتے اے اہل وفا جانا ہم نیند کی چادر میں لپٹے ہوئے چلتے ہیں اس بھیس میں اب ہم سے ملنا ہو تو آ ...

    مزید پڑھیے

    لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے

    لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے چارہ سازوں کو مری شام بلا بھی نہ ملے حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل لیکن لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے کچھ نگاہوں سے غم دل کی خبر ملتی ہے ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے خواہش داد رسی کیا ہو ستمگر سے جہاں آنکھ میں شائبۂ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2