Vali Madni

ولی مدنی

ولی مدنی کی نظم

    ملال

    تمام ذی روح گرمیوں سے تڑپ رہے تھے برس رہا تھا عجیب تشنہ لبی کا موسم کسی نے رکھا قریب میرے گلاس لبریز پانیوں سے کہ تو بجھا لے پیاس اپنی بجھانے پیاس اک نحیف کوا قریب آیا گلاس پر چونچ اس نے ماری تھا کانچ نازک بکھر گیا ٹوٹ کر نہ میں پی سکا نہ وہ پی سکا ہے جس کا آج تک ملال دل کو

    مزید پڑھیے

    خوش نما تتلی

    لوگ حیراں ہیں کیوں چھوڑ کے شاخ گل کو آ کے بیٹھی ہے ہتھیلی پہ مری ایک خوش نما تتلی کوئی کیا جانے کہ یہ چوستی ہے میری قسمت کے کسیلے رس کو

    مزید پڑھیے

    آتی جاتی لہریں

    چپکے چپکے خزاں آ گئی باغ میں پیڑ پودوں پہ زردی چھڑکنے لگی سارے پتوں کو اک روگ سا لگ گیا دیکھتے دیکھتے ساری شاخیں برہنہ ہوئیں پیڑ دم سادھے چپ چاپ تھے خامشی سبز موسم کو اچھی لگی اور پھر دیکھتے دیکھتے پیڑ پودوں پہ پتے چھڑکنے لگا سبز موسم کے احسان کے بوجھ سے سارے گلشن کا سر جھک ...

    مزید پڑھیے

    کرب تنہائی

    میں ہوں ویرانے میں ایک شجر تنہا مجھ پہ چھایا رہتا ہے ایک مہیب سناٹا جانے کب تک ان سناٹوں کا ساتھ رہے گا دل میں جاگے ہے بس یہی ارماں کاش چڑیا کوئی آئے مجھ پہ بیٹھے پھدکے گائے خوب چہچہائے جوڑ کے تنکے باہوں پر مری خوب منائے رین بسیرا جنم دے بھولے بھالے بچوں کو شاخوں سے پھل توڑے کھائے ...

    مزید پڑھیے