Vali Madni

ولی مدنی

ولی مدنی کی غزل

    پھیلا نہ یوں خلوص کی چادر مرے لئے

    پھیلا نہ یوں خلوص کی چادر مرے لئے کل تک تھا تیرے ہاتھ میں پتھر مرے لئے پلکوں پہ کچھ حسین سے موتی سجا گیا پھر سونی سونی شام کا منظر مرے لئے دیوار و در سے اس کے ٹپکتی ہے تشنگی اک دشت بے کراں ہے مرا گھر مرے لئے خوشبو جو پیار کی مجھے دیتا تھا اب وہی رکھتا ہے دست ناز میں خنجر مرے ...

    مزید پڑھیے

    بنا کر خود کو جس نے اک بھلا انسان رکھا ہے

    بنا کر خود کو جس نے اک بھلا انسان رکھا ہے سکون قلب کا اپنے لئے سامان رکھا ہے سکوں کے ساتھ جینا تو بہت دشوار ہے لیکن زمانہ نے پہنچنا مرگ تک آسان رکھا ہے نہ کیوں محتاط رکھوں خود کو وقت گفتگو تم سے تمہارے دل کو میں نے آبگینہ جان رکھا ہے پری کیوں نیند کی اترے مری پلکوں کے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    بہت ٹوٹا ہوں لیکن حوصلہ زندہ بہت کچھ ہے

    بہت ٹوٹا ہوں لیکن حوصلہ زندہ بہت کچھ ہے مرے اندر ابھی ایثار کا جذبہ بہت کچھ ہے عطا کی ہے اسی نے زندگی کو کرب کی دولت مگر اس میں مرے دل کا بھی سرمایہ بہت کچھ ہے بچاتا ہے کہاں یہ دوپہر کی دھوپ سے ہم کو یوں کہنے کو یہاں دیوار کا سایہ بہت کچھ ہے محبت کا جسے آسیب کہتے ہیں جہاں ...

    مزید پڑھیے

    سینے کے داغ ان کو دکھائے نہ جا سکے

    سینے کے داغ ان کو دکھائے نہ جا سکے مجھ سے فسانے غم کے سنائے نہ جا سکے ایسے نگر میں میرا مقدر ہوا مقیم جس میں خوشی کے دیپ جلائے نہ جا سکے ایوان صبر آج زمیں بوس ہو گیا پلکوں میں اشک مجھ سے چھپائے نہ جا سکے ہم نے تو خون دل سے کھلائے ہیں گلستاں تم سے تو خار و خس بھی اگائے نہ جا ...

    مزید پڑھیے

    فصیل ریگ پر اتنا بھروسہ کر لیا تم نے

    فصیل ریگ پر اتنا بھروسہ کر لیا تم نے چھتیں بھی ڈال دیں اور وا دریچہ کر لیا تم نے تعجب ہے عبادت میں بھی ایسا کر لیا تم نے نہیں دل کو جھکایا اور سجدہ کر لیا تم نے کبھی مانا شریعت کی کبھی اس سے رہے عاجز مگر دعویٰ کہ دل اللہ والا کر لیا تم نے محبت پیار ہمدردی سبھی کو رکھ دیا ...

    مزید پڑھیے

    ہوائے شوخ کی آخر فسوں کاری یہ کیسی ہے

    ہوائے شوخ کی آخر فسوں کاری یہ کیسی ہے اذیت دے کے ٹل جاتی ہے دل داری یہ کیسی ہے برستے ہیں مسلسل اپنے سر آفات کے پتھر بتا اے دل بلاؤں کی خریداری یہ کیسی ہے اگی ہیں دھوپ کی فصلیں کہیں سایہ نہیں ملتا شجرکاری کا دعویٰ تھا شجرکاری یہ کیسی ہے کھڑی ہے اپنے دامن کو پسارے غیر کے آگے مرے ...

    مزید پڑھیے

    دل پیار کے رشتوں سے مکر بھی نہیں جاتا

    دل پیار کے رشتوں سے مکر بھی نہیں جاتا شاکی ہے مگر چھوڑ کے در بھی نہیں جاتا ہم کس سے کریں شعلگیٔ مہر کا شکوہ اے ابر گریزاں تو ٹھہر بھی نہیں جاتا اس شہر انا میں جو فسادات نہ چھڑتے تو پیار کا یہ شوق سفر بھی نہیں جاتا وہ فہم و فراست کا دیا ہاتھ میں لے کر اس دور شدد سے گزر بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے