عمیر نجمی کی غزل

    میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی

    میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی میرے اندازے سے ہر بار زیادہ نکلی کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی یہ مری موت کے اسباب میں لکھا ہوا ہے خون میں عشق کی مقدار زیادہ نکلی کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی

    مزید پڑھیے

    اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا

    اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ یعنی تعلقات عبوری بناؤں گا تجھ کو خبر نہ ہوگی کہ میں آس پاس ہوں اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا رنگوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا

    دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں وہ جنہیں کاتب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2