عمیر نجمی کی غزل

    ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ

    ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ یہ ...

    مزید پڑھیے

    میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد

    میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں کون دیکھے گا پرانی نئی ...

    مزید پڑھیے

    کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے

    کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنے نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدید ایسا کچھ کر مجھے سگریٹ کو جلانا نہ پڑے اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے اس پہاڑی پہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے

    ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ...

    مزید پڑھیے

    تم اس خرابے میں چار چھ دن ٹہل گئی ہو

    تم اس خرابے میں چار چھ دن ٹہل گئی ہو سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو تمام دن اس دعا میں کٹتا ہے کچھ دنوں سے میں جاؤں کمرے میں تو اداسی نکل گئی ہو کسی کے آنے پہ ایسے ہلچل ہوئی ہے مجھ میں خموش جنگل میں جیسے بندوق چل گئی ہو یہ نہ ہو گر میں ہلوں تو گرنے لگے برادہ دکھوں کی دیمک بدن ...

    مزید پڑھیے

    مجھے پہلے تو لگتا تھا کہ ذاتی مسئلہ ہے

    مجھے پہلے تو لگتا تھا کہ ذاتی مسئلہ ہے میں پھر سمجھا محبت کائناتی مسئلہ ہے پرندے قید ہیں تم چہچہاہٹ چاہتے ہو تمہیں تو اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ ہے ہمیں تھوڑا جنوں درکار ہے تھوڑا سکوں بھی ہماری نسل میں اک جینیاتی مسئلہ ہے بڑی مشکل ہے بنتے سلسلوں میں یہ توقف ہمارے رابطوں کی بے ...

    مزید پڑھیے

    جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا

    جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا تو ...

    مزید پڑھیے

    مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا

    مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا شروع دن سے گھر میں سن رہا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ سفینے ہیں جو غرقاب اکٹھے ہوں گے

    کچھ سفینے ہیں جو غرقاب اکٹھے ہوں گے آنکھ میں خواب تہہ آب اکٹھے ہوں گے جن کے دل جوڑتے یہ عمر بتا دی میں نے جب مروں گا تو یہ احباب اکٹھے ہوں گے منتشر کر کے زمانوں کو کھنگالا جائے تب کہیں جا کے مرے خواب اکٹھے ہوں گے ایک ہی عشق میں دونوں کا جنوں ضم ہوگا پیاس یکساں ہے تو سیراب اکٹھے ...

    مزید پڑھیے

    بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے

    بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک مجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2