توصیف تابش کی غزل

    اس لیے کم کسی سے ملتا ہے

    اس لیے کم کسی سے ملتا ہے خود سے مل کر مجھی سے ملتا ہے چشم گریہ کو دیکھئے گا کبھی دل کا دریا اسی سے ملتا ہے جس کو دیکھا نہیں کبھی میں نے تیرا چہرہ اسی سے ملتا ہے تیری آنکھیں بتا رہی ہیں مجھے خواب میں تو کسی سے ملتا ہے میں نے دیکھا تھا خواب میں اس کو وہ مری شاعری سے ملتا ہے آئینہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نے آنکھیں کچھ نے چہرہ دیکھا ہے

    کچھ نے آنکھیں کچھ نے چہرہ دیکھا ہے سب نے تجھ کو تھوڑا تھوڑا دیکھا ہے تم پر پیاس کے معنی کھلنے والے نہیں تم نے پانی پی کر دریا دیکھا ہے جن ہاتھوں کو چومنے آ جاتے تھے لوگ آج انہیں ہاتھوں میں کاسہ دیکھا ہے روتی آنکھیں یہ سن کر خاموش ہوئیں ملبے میں اک شخص کو زندہ دیکھا ہے بابا ...

    مزید پڑھیے

    بے قراری سی بے قراری ہے

    بے قراری سی بے قراری ہے اب یہی زندگی ہماری ہے میں نے اس کو پچھاڑنا ہے میاں میری سائے سے جنگ جاری ہے عشق کرنا بھی لازمی ہے مگر مجھ پہ گھر کی بھی ذمہ داری ہے پیار ہے مجھ کو زندگی سے بہت اور تو زندگی سے پیاری ہے میں کبھی خود کو چھوڑتا ہی نہیں میری خود سے الگ سی یاری ہے شہر کا شہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2