توصیف تابش کی غزل

    جب سنا اس نے کہ پیاسا مر گیا

    جب سنا اس نے کہ پیاسا مر گیا شرم سے بستی کا چشمہ مر گیا تیرے آتے جی اٹھا تھا ایک شخص تیرے جاتے ہی دوبارہ مر گیا اس طرح روکے ہوئے تھا سانس میں دیکھنے والوں نے سمجھا مر گیا دوست جس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اب میرے اندر کا وہ لڑکا مر گیا اس لیے پہچانتا کوئی نہیں کم جیا ہوں اور زیادہ ...

    مزید پڑھیے

    آشیاں چھوڑ کر نکل آئے

    آشیاں چھوڑ کر نکل آئے جب پرندوں کے پر نکل آئے اس نے جب ہاتھ میں لیا پتھر کتنے بیتاب سر نکل آئے دل کریدا تو اس کے ملبے سے یاد کے بام و در نکل آئے برف تھی برف کے پگھلتے ہی پھول اس شاخ پر نکل آئے جس طرف روشنی نہیں آتی اس طرف تو اگر نکل آئے وہ مرے ساتھ کیا چلا تابشؔ وقت کے بال و پر ...

    مزید پڑھیے

    آئنے کے روبرو اک آئنہ رکھتا ہوں میں

    آئنے کے روبرو اک آئنہ رکھتا ہوں میں رات دن حیرت میں خود کو مبتلا رکھتا ہوں میں دوستوں والی بھی اک خوبی ہے ان میں اس لئے دشمنوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھتا ہوں میں روز و شب میں گھومتا ہوں وقت کی پر کار پر اپنے چاروں سمت کوئی دائرہ رکھتا ہوں میں کھٹکھٹانے کی بھی زحمت کوئی آخر کیوں ...

    مزید پڑھیے

    میں ترے دھیان کے گاؤں میں نکل آیا ہوں

    میں ترے دھیان کے گاؤں میں نکل آیا ہوں دھوپ کو چھوڑ کے چھاؤں میں نکل آیا ہوں اس نے ہونٹوں کے لیے تل کی دعا مانگی تھی اس کی قسمت کہ میں پاؤں میں نکل آیا ہوں خاک پر بوجھ سمجھتے تھے زمیں والے مجھے خود کو میں لے کے خلاؤں میں نکل آیا ہوں اب کے برسات بھی ہوگی تو الگ سی ہوگی چشم تر لے کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ مری راہ دیکھتی ہوگی

    وہ مری راہ دیکھتی ہوگی پھر اسے نیند آ گئی ہوگی تم سے تو عشق بھی نہیں ہوتا تم سے کیا خاک شاعری ہوگی بولنے میں جو ہچکچاتی ہے وہ یقیناً پڑھی لکھی ہوگی ورنہ کمرے میں شور کیوں ہوتا اس کی تصویر بولتی ہوگی دوستو میں چلا خدا حافظ مجھ کو تنہائی ڈھونڈھتی ہوگی ورنہ دریا نے بہتے رہنا ...

    مزید پڑھیے

    میں اس سے بات کرنے جا چکا تھا

    میں اس سے بات کرنے جا چکا تھا مگر وہ شخص آگے جا چکا تھا مجھے دریا نے پھر اوپر بلایا میں اس کی حد سے نیچے جا چکا تھا ترے نقش قدم پر چلتے چلتے میں تجھ سے کتنا آگے جا چکا تھا پڑھائی ختم کرکے جب میں لوٹا کوئی افسر اسے لے جا چکا تھا وہ چلنے کو تو راضی ہو گئی تھی مگر جب میں اکیلے جا چکا ...

    مزید پڑھیے

    میں تیری آنکھ میں یہ کیا تلاش کرتا ہوں

    میں تیری آنکھ میں یہ کیا تلاش کرتا ہوں بھنور کے بیچ کنارہ تلاش کرتا ہوں میں اک سکون کا لمحہ تلاش کرتا ہوں اداسیوں میں بھی رستہ تلاش کرتا ہوں جو میری آنکھ سے اوجھل کبھی نہیں ہوتا اسے میں سب سے زیادہ تلاش کرتا ہوں اسی لیے تو کبھی ڈھونڈ ہی نہیں پایا ہر ایک شخص میں خود سا تلاش کرتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ پری زاد ہے یہ سب کو دکھانا تھا مجھے

    وہ پری زاد ہے یہ سب کو دکھانا تھا مجھے صرف اک بار اسے ہاتھ لگانا تھا مجھے یہ تو میرا ہی ہنر تھا جسے اظہار ملا ورنہ مرشد نے کہاں اسم سکھانا تھا مجھے اس لیے بھی میں بہت دیر سے پہنچا تجھ تک اپنے قدموں کا ہر اک نقش مٹانا تھا مجھے اپنی تیراکی بھی کرنی تھی سبھی پر ثابت اور پھر خود کو ...

    مزید پڑھیے

    پرندے آزمائے جا رہے تھے

    پرندے آزمائے جا رہے تھے پروں سے گھر بنائے جا رہے تھے کسی صحرا سے آتی تھیں صدائیں کہیں پیڑوں کے سائے جا رہے تھے گھروں سے لوگ ہجرت کر رہے تھے چراغوں کو بجھائے جا رہے تھے پرانے پیڑ کٹتے جا رہے تھے نئے پودے لگائے جا رہے تھے کہیں مابعد ہم نے آنکھ کھولی ہمیں سپنے دکھائے جا رہے ...

    مزید پڑھیے

    غزل یہ جو ہماری ہو رہی ہے

    غزل یہ جو ہماری ہو رہی ہے تری آنکھوں سے جاری ہو رہی ہے تم اپنے شہر کے بارے میں بولو یہاں تو برف باری ہو رہی ہے میں خود میں ہی بکھرتا جا رہا ہوں کہ مجھ میں سنگ باری ہو رہی ہے ہماری جیبیں کاٹی جا چکی ہیں تلاشی کیوں ہماری ہو رہی ہے فلک کے کان ہی شاید نہیں ہیں زمیں پر آہ و زاری ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2