توصیف تبسم کی غزل

    اس پار جہان رفتگاں ہے

    اس پار جہان رفتگاں ہے اک درد کی رات درمیاں ہے آنکھیں ہیں کہ رہ گزار سیلاب اور دل ہے کہ ڈوبتا مکاں ہے اچھا ہے کہ صرف عشق کیجے یہ عمر تو یوں بھی رائیگاں ہے کس یاد کی چاندنی ہے دل میں اک لہر سی خون میں رواں ہے یاد آیا وہاں گرے تھے آنسو اب سبزہ و گل جہاں جہاں ہے ہر لحظہ بدل رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    مرتے مرتے روشنی کا خواب تو پورا ہوا

    مرتے مرتے روشنی کا خواب تو پورا ہوا بہہ گیا سارا لہو تن کا تو دن آدھا ہوا راستوں پر پیڑ جب دیکھے تو آنسو آ گئے ہر شجر سایہ تھا تیری یاد سے ملتا ہوا صبح سے پہلے بدن کی دھوپ میں نیند آ گئی اور کتنا جاگتا میں رات کا جاگا ہوا شہر دل میں اس طرح ہر غم نے پہچانا مجھے جیسے میرا نام تھا ...

    مزید پڑھیے

    میری صورت سایۂ دیوار و در میں کون ہے

    میری صورت سایۂ دیوار و در میں کون ہے اے جنوں میرے سوا یہ میرے گھر میں کون ہے ٹھیک ہے اے ضبط غم! آنسو کوئی ٹپکا نہیں پر یہ دل سے آنکھ تک پیہم سفر میں کون ہے وہ تو کب کا اپنی منزل پر پہنچ کر سو چکا چاند کیا جانے کہ راہ پر خطر میں کون ہے میں تو اس صورت کا دیوانہ ہوں پر اے زندگی! صورت ...

    مزید پڑھیے

    دل کی بات نہ مانی ہوتی عشق کیا کیوں پیری میں

    دل کی بات نہ مانی ہوتی عشق کیا کیوں پیری میں اپنی مرضی بھی شامل ہے اپنی بے توقیری میں درد اٹھا تو ریزہ دل کا گوشۂ لب پر آن جما خوش ہیں کوئی نقش تو ابھرا بارے بے تصویری میں قید میں گل جو یاد آیا تو پھول سا دامن چاک کیا اور لہو پھر روئے گویا بھولے نہیں اسیری میں جانے والے چلے گئے ...

    مزید پڑھیے

    دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے

    دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجے آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے ٹوٹ کر شاخ سے اک برگ خزاں آمادہ سوچتا ہے کہ گزرتا ہوا جھونکا کیا ہے کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں میرے دامن میں ...

    مزید پڑھیے

    تھا پس مژگان‌ تر اک حشر برپا اور بھی

    تھا پس مژگان‌ تر اک حشر برپا اور بھی میں اگر یہ جانتا شاید تو روتا اور بھی پاؤں کی زنجیر گرداب بلا ہوتی اگر ڈوبتے تو سطح پر اک نقش بنتا اور بھی آندھیوں نے کر دیئے سارے شجر بے برگ و بار ورنہ جب پتے کھڑکتے دل لرزتا اور بھی روزن در سے ہوا کی سسکیاں سنتے رہو یہ نہ دیکھو ہے کوئی یاں ...

    مزید پڑھیے

    واہمہ ہوگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

    واہمہ ہوگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا میرے سایہ ہی مرے جسم سے لپٹا ہوگا چاند کی طرف نگاہوں میں لئے خواب طرب اور اک عمر ابھی خاک پہ سونا ہوگا اشک آئے ہیں تو یہ سیر چراغاں بھی سہی اس سے آگے تو وہی خون کا دریا ہوگا گر کبھی ٹوٹی بدلتی ہوئی رت کی زنجیر ایک اک پھول یہاں خود کو ترستا ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو

    آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو اب وہ حیرت ہے کہ پہروں نہیں پاتے خود کو آشنا لوگ جو انجام سفر سے ہوتے صورت نقش قدم آپ مٹاتے خود کو ایک دنیا کو گرفتار غم جاں دیکھا یوں نہ ہوتا تو تماشا نظر آتے خود کو آئنہ رنگ کا سیلاب ہے پایاب بہت آنکھ ملتی تو یہ منظر بھی دکھاتے خود کو اب یہ ...

    مزید پڑھیے

    کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

    کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز تیری آنکھیں ترے ...

    مزید پڑھیے

    تم اچھے تھے تم کو رسوا ہم نے کیا

    تم اچھے تھے تم کو رسوا ہم نے کیا پھر کہنا، کیا تم نے کہا، کیا ہم نے کیا آنسو سارے پلکوں ہی میں جذب ہوئے دریا کو تصویر دریا ہم نے کیا اے میرے دل تنہا دل چپ چپ رہنا پہلے بھی تو شور کیا، کیا ہم نے کیا نقش گرو! کب ہم نے منظر بدلا ہے چاندی بال اور چہرہ سونا ہم نے کیا آنسو نے دل کا ہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2