Taskeen Dehlavi

میر تسکینؔ دہلوی

  • 1803 - 1851

میر تسکینؔ دہلوی کی غزل

    نام لو گے جو یاں سے جانے کا

    نام لو گے جو یاں سے جانے کا آپ میں پھر نہیں میں آنے کا ہم کو طوف حرم میں یاد آیا لڑکھڑانا شراب خانے کا دم لے اے چشم تر کہ دیکھوں میں عالم اس گل کے مسکرانے کا دیکھ سکتے نہیں وہ میرا حال کیا سبب کہئے مسکرانے کا دل صد چاک کی بنا صورت زلف پر دل گیا ہے شانے کا جلوہ اس ضد سے وہ دکھا ...

    مزید پڑھیے

    دل کس کی تیغ ناز سے لذت چشیدہ ہے

    دل کس کی تیغ ناز سے لذت چشیدہ ہے ہر زخم شوق سے لب حسرت گزیدہ ہے اس گرم اضطراب سے دل جل گیا خدا پہلو میں میرے دل ہے کہ برق طپیدہ ہے چوسا دہان زخم نے اس کو ہے اس طرح پیکان تیر یار زبان مکیدہ ہے ناصح جنوں کی بخیہ گری کی ہوس نہیں ہر تار جیب اب تو گریباں دریدہ ہے غنچہ کی طرح خاک رکھیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2