Tasadduq Husain Khalid

تصدق حسین خالد

تصدق حسین خالد کی نظم

    یہ تماشا گہ عالم کیا ہے

    تم چمن زاد ہو فطرت کے قریں رہتے ہو دل یہ کہتا ہے کہ تم محرم اسرار بھی ہو تمہیں فطرت کی بہاروں کی قسم یہ تماشا گہ عالم کیا ہے نور خورشید کا جاں سوز جہاں تاب جمال آسمانوں پہ ستاروں کا سبک کام خرام یہ گرجتے ہوئے بادل یہ سمندر کا خروش یہ پرندوں کے سہانے نغمے کہیں بڑھتی ہوئی عظمت کہیں ...

    مزید پڑھیے

    چاند آج کی رات نہیں نکلا

    چاند آج کی رات نہیں نکلا وہ اپنے لحافوں کے اندر چہرے کو چھپائے بیٹھا ہے وہ آج کی رات نہ نکلے گا یہ رات بلا کی کالی رات تارے اسے جا کے بلائیں گے صحرا اسے آوازیں دے گا بحر اور پہاڑ پکاریں گے لیکن اس نیند کے ماتے پر کچھ ایسا نیند کا جادو ہے وہ آج کی رات نہ نکلے گا یہ رات بلا کی کالی ...

    مزید پڑھیے

    ایک کتبہ

    شیر دل خاں میں نے دیکھے تیس سال پے بہ پے فاقے مسلسل ذلتیں جنگ روٹی سامراجی بیڑیوں کو وسعتیں دینے کا فرض ایک لمبی جانکنی سو رہا ہوں اس گڑھے کی گود میں آفتاب مصر کے سائے تلے میں کنوارا ہی رہا کاش میرا باپ بھی

    مزید پڑھیے

    موج دریا

    اے حسیں ساحل مگر سوتا ہے تو تیرے حسن بے خبر پر میری بیداری نثار میرے قطروں کی جبیں مضطرب سجدوں کی دنیائے نیاز آستاں ناز پر ذوق عبادت کا ہجوم دیکھ لرزاں سانس تیری دید کو آتی ہوں میں گاتی ہوئی روتی ہوئی اور تو اضطرار فطرت سیماب کا رنگ ادا تیری اس شان تغافل پر فدا سوتا ہے تو درد الفت ...

    مزید پڑھیے

    اعجاز تصور

    راہ دیکھی نہیں اور دور ہے منزل میری کوئی ساقی نہیں میں ہوں مری تنہائی ہے دیکھنی ہے مجھے حیرانی سے تاروں کی نگاہ دور ان سے بھی کہیں دور مجھے جانا ہے اس بلندی پہ اڑے جاتا ہے تو سن میرا کہکشاں گرد سی دیتی ہے دکھائی مجھ کو رفعت گوش سے سنتا ہوا مبہم سا شرار میری منزل ہے کہا یہ کبھی سوچا ...

    مزید پڑھیے

    یہ بغاوت ہے

    روندتے جاؤ گزر گاہوں کو سر اٹھائے ہوئے سینہ تانے کانپ جائیں در و دیوار قدم یوں اٹھیں دھڑکنیں دل کی بنیں بانگ رحیل یہ بغاوت ہے بغاوت ہی سہی ہم نے انجام وفا دیکھ لیا خس و خاشاک بہاتا ہوا اپنا سیلاب اب جو اٹھا ہے تو بڑھتا ہی چلا جائے گا یہ زر و سیم کے تودوں سے نہیں رک سکتا گولیاں کس ...

    مزید پڑھیے

    قرباں گاہ امن

    کھیت سوتے ہیں فضا میں کرگسوں کا ایک جھنڈ تیرتا آتا ہے منڈلاتا ہوا سوئی زمیں آنکھ میں تنہائیوں کی وسعتیں جھونپڑی میں ایک ماں اک جواں افسردگی سینۂ عریاں سے لپٹائے ہوئے ایک جان ناتواں آنکھ پر نم ہونٹ لرزاں پی مری جاں پی جواں ہو منتظر ہے تیری قرباں گاہ امن

    مزید پڑھیے

    پشیمانی

    موت کا راگ نفیری پہ بجاتی آٹھی لو جھلستی ہوئی لو آٹھی بڑھی ریت پہ جیسے دھواں اٹھتا ہو سرسراہٹ سی درختوں میں ہوئی پتے مرجھا گئے گرنے لگے وہ ان کے کھڑکنے کی صدا میرے خدا لو کے ہم راہ بڑھے موت کے ناچ کا نکلا تھا جلوس چونک کر جاگ اٹھے صحن چمن میں طائر آشیانوں سے جدائی انہیں منظور نہ ...

    مزید پڑھیے

    شیر دل خاں

    شیر دل خاں میں نے دیکھے تیس سال پے بہ پے فاقے مسلسل ذلتیں جنگ روٹی سامراجی بیڑیوں کو وسعتیں دینے کا فرض سو رہا ہوں اس گڑھے کی گود میں آفتاب مصر کے سائے تلے میں کنوارا ہی رہا کاش میرا باپ بھی اف کنوارا کیا کہوں

    مزید پڑھیے

    پیام

    فضاؤں میں کوئی نادیدہ معلوم رستہ ہے جہاں جذبات مضطر روح کے سیماب پا قاصد صعوبات سفر سے بے خبر اک دور منزل کو پروں میں الفتوں کے راز کو لے کر ہواؤں کی طرح آزاد بے پروا اڑے جائیں پیام شوق دے آئیں اگر اس رات اس بے راہ رستے پر کوئی جذبہ دل بے تاب سے اٹھ کر عناں برداشتہ نکلے اشارے گرم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2