طارق قمر کی نظم

    سکوت شب میں

    وہ ایک رات تھی ایسی کہ قدر و اسریٰ نے نگاہ اپنی جمائی تو پھر ہٹائی نہیں وہ ریگزار کے سینے پہ نسب اک خیمہ نہ جانے کون سی تاریخ لکھنے والا تھا سکوت شب میں بھی آہٹ تھی انقلابوں کی سجی تھی بزم وہاں آسماں جنابوں کی ہوائے دشت بھی آہستہ پا گزرتی تھی سویرے معرکہ ہونا تھا حق و باطل ...

    مزید پڑھیے

    ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا

    قلم اداس ہے لفظوں میں حشر برپا ہے ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا جنون شوق جنون سفر بھی ختم ہوا فرات جاں تری موجوں میں اب روانی نہیں کوئی فسانہ نہیں اب کوئی کہانی نہیں سمٹ گئے ہیں کنارے وہ بیکرانی نہیں تو کیا یہ نبض کا چلنا ہی زندگانی ہے نہیں نہیں یہ کوئی زیست کی نشانی نہیں کہ ...

    مزید پڑھیے

    جون ایلیا سے آخری ملاقات

    وہ ایک طرز سخن کی خوشبو وہ ایک مہکا ہوا تکلم لبوں سے جیسے گلوں کی بارش کہ جیسے جھرنا سا گر رہا ہو کہ جیسے خوشبو بکھر رہی ہو کہ جیسے ریشم الجھ رہا ہو عجب بلاغت تھی گفتگو میں رواں تھا دریا فصاحتوں کا وہ ایک مکتب تھا آگہی کا وہ علم و دانش کا مے کدہ تھا وہ قلب اور ذہن کا تصادم جو گفتگو ...

    مزید پڑھیے

    کس شان سے جیتے تھے یہاں خوار ہوئے کیوں

    طارقؔ کیا کبھی قوم کا نوحہ بھی لکھو گے یا بس در دولت کا قصیدہ ہی لکھو گے انگشت نمائی سدا اغیار پہ ہوگی یا جرم کبھی کوئی تم اپنا بھی لکھو گے جو دل پہ گزرتے ہیں وہ صدمات لکھو اب چھوڑو یہ قصیدہ کوئی حق بات لکھو اب کیوں اپنی وفاؤں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں کیوں ہم پہ ہی یہ ظلم و ستم ٹوٹ رہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2