ہوا کا رخ جو بدل گیا ہے
وہ جس ہوا نے چھوا تھا اس کو اسی میں میں نے بھی سانس لی تھی وہ زندگی تھی وہ شاعری تھی ہوا کا رخ جو بدل گیا ہے تو یہ ہوا ہے نہ زندگی ہے نہ شاعری ہے
وہ جس ہوا نے چھوا تھا اس کو اسی میں میں نے بھی سانس لی تھی وہ زندگی تھی وہ شاعری تھی ہوا کا رخ جو بدل گیا ہے تو یہ ہوا ہے نہ زندگی ہے نہ شاعری ہے
وہ ایک ننھی سی پیاس جس نے فرات عصمت کے ساحلوں پر سراب صحرا کی داستانوں کو اپنے خوں سے رقم کیا تھا جفا کے تیروں کو خم کیا تھا وفا کی آنکھوں کو نم کیا تھا بلند حق کا علم کیا تھا وہ پیاس کروٹ بدل رہی ہے اب اپنے پیروں سے چل رہی ہے وہ پیاس بچپن میں جس نے ساتوں سمندروں کا سفر کیا تھا وہ ...
ملی نہ میدان کی اجازت تبھی تو قاسم یاد آیا کہ ایک تعویذ میرے بابا نے خود مرے سامنے لکھا تھا جو میرے بازو پہ اب تلک بھی بندھا ہوا ہے اسے بصد اشتیاق کھولا تو اس میں لکھا ہوا یہی تھا اے لال اے میری جان قاسم حسین سے جب نگاہ پھیرے یہ کل زمانہ چہار جانب سے حملہ ور ہوں مصیبتیں جب رہ وفا ...
بوقت عصر اذاں گونجتی ہے صحرا میں نماز خود ہی مصلیٰ بچھانے آئی ہے بڑا عجیب تھا منظر عجیب رات تھی وہ ہوائیں سہمی ہوئی تھیں چراغ چپ چپ تھے ہر ایک سمت وہی بے کراں سی خاموشی فضا اداس وہی نیم جاں سی خاموشی سکوت شب میں بھی آہٹ تھی انقلابوں کی سجی تھی بزم وہاں آسماں جنابوں کی بہت سی ...
ایک مدت ہوئی سوچتے سوچتے تم سے کہنا ہے کچھ پر میں کیسے کہوں آرزو ہے مجھے ایسے الفاظ کی جو کسی نے کسی سے کہے ہی نہ ہوں سوچتا ہوں کہ موج صبا کے سبک پاؤں میں کوئی پازیب ہی ڈال دوں چاہتا ہوں کہ ان تتلیوں کے پروں میں دھنک باندھ دوں سرمئی شام کے گیسوؤں میں بندھی بارشیں کھول دوں خوشبوئیں ...
لہو کی پیاسی برہنہ تیغوں کو یہ پتا ہے چمکتے خنجر یہ جانتے ہیں کہ شاہزادی کی لغزشوں سے غلام شاہی کی جرأتوں سے حرم کی حرمت کا خوں ہوا ہے محل کی عظمت کا خوں ہوا ہے شرافتوں اور نجابتوں کے چراغ و مہتاب بجھ گئے ہیں بہ نام الفت یہ آگ کیسی ہوئی ہے روشن کہ طاق و محراب بجھ گئے ہیں حروف عصمت ...
ترا ایک خط مرے پاس ہے وہ محبتوں سے لکھا ہوا تھی وہ فاصلوں کی تپش عجب مرے حوصلے بھی پگھل گئے جہاں سوز ہجر کا ذکر ہے وہیں کوئی آنسو گرا ہوا وہی ایک تشنہ سی آرزو کبھی قرض جس کا ادا نہ ہو پس حرف شکوے ہزار ہوں سر لفظ کوئی گلہ نہ ہو تری آرزو تری خواہشوں کا کوئی حساب نہ لکھ سکا میں سراپا ...
عجب فضا ہے عجب اداسی عجیب وحشت برس رہی ہے عجب ہے خوف و ہراس ہر سو عجیب دہشت برس رہی ہے عجب گھٹن ہے عجب تعفن میں کس جگہ کس دیار میں ہوں کہ جیسے مقتل میں آ گیا ہوں میں قاتلوں کے حصار میں ہوں پھٹی پھٹی سی یہ سرخ آنکھیں سنہرے خوابوں کو رو رہی ہیں گناہ کیسے ہوئے ہیں سرزد یہ کن عذابوں کو ...
وہ ایک ننھی سی پیاس جس نے سراب صحرا کی داستانوں کو اپنے خوں سے رقم کیا تھا جفا کے تیروں کو خم کیا تھا وفا کی آنکھوں کو نم کیا تھا بلند حق کا علم کیا تھا وہ پیاس کروٹ بدل رہی ہے اب اپنے پیروں سے چل رہی ہے وہ پیاس بچپن میں جس نے ساتوں سمندروں کا سفر کیا تھا وہ پیاس جس کی خموشیوں نے ...
کہاں گئے وہ وطن کی عصمت بچانے والے وقار و عظمت بڑھانے والے وفا کا پرچم اٹھانے والے انہیں بلاؤ ہم ان کی آنکھوں سے آج اپنے وطن کو دیکھیں کہاں گئے وہ جو داستان وفا کو اپنے لہو سے تحریر کر رہے تھے جو اپنی آنکھوں کی قیمتوں پر بھی خواب تعبیر کر رہے تھے جو روشنی کے سفیر بن کر دلوں میں ...