Tariq Pirzada

طارق پیرزادہ

طارق پیرزادہ کی غزل

    نکلے لوگ سفر پر شب کے جنگل میں

    نکلے لوگ سفر پر شب کے جنگل میں روشنی بھر دے کرنوں والے پل پل میں او بادل کب پیاس بجھانے آئے گا وقت گزرتا جائے تیری کل کل میں چیخیں ایسی پھوٹ رہی ہیں بستی سے جیسے کوئی ڈوب رہا ہو دلدل میں کون سکوں دے بھیگی رت کے پنچھی کو انگاروں کا ڈھیر لگا ہے جل تھل میں خاموشی سے چھپ چھپ طارقؔ ...

    مزید پڑھیے

    برس گیا جو بدن پر جمال تھا اس کا

    برس گیا جو بدن پر جمال تھا اس کا اتر گیا جو سمندر خیال تھا اس کا بکھر گئی جو زمیں پر بہار تھی اس کی پھر اس کے بعد سمٹنا محال تھا اس کا کدھر گئی شب دل کی نڈھال سی بستی کہاں گیا غم رفتہ سوال تھا اس کا ملا تو شام کے سائے میں ایک پل وہ بھی بس ایک ہجر کی صورت وصال تھا اس کا وہ ایک پھول ...

    مزید پڑھیے