برس گیا جو بدن پر جمال تھا اس کا

برس گیا جو بدن پر جمال تھا اس کا
اتر گیا جو سمندر خیال تھا اس کا


بکھر گئی جو زمیں پر بہار تھی اس کی
پھر اس کے بعد سمٹنا محال تھا اس کا


کدھر گئی شب دل کی نڈھال سی بستی
کہاں گیا غم رفتہ سوال تھا اس کا


ملا تو شام کے سائے میں ایک پل وہ بھی
بس ایک ہجر کی صورت وصال تھا اس کا


وہ ایک پھول کہ رہتی تھی اپنی خوشبو میں
وہ ایک بھول کہ اس کو ملال تھا اس کا