نکلے لوگ سفر پر شب کے جنگل میں

نکلے لوگ سفر پر شب کے جنگل میں
روشنی بھر دے کرنوں والے پل پل میں


او بادل کب پیاس بجھانے آئے گا
وقت گزرتا جائے تیری کل کل میں


چیخیں ایسی پھوٹ رہی ہیں بستی سے
جیسے کوئی ڈوب رہا ہو دلدل میں


کون سکوں دے بھیگی رت کے پنچھی کو
انگاروں کا ڈھیر لگا ہے جل تھل میں


خاموشی سے چھپ چھپ طارقؔ پیار کرو
جینا ہو جب طوفانوں کی ہلچل میں