تجھے کیا خبر
تری آرزو جسے میں نے سب سے الگ رکھا اسے دل کے نرم غلاف سے کبھی جھانکنے بھی نہیں دیا کہ یہ خواہشوں کے ہجوم میں کہیں اپنی قدر گنوا نہ دے تری چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو بڑے قرینے سے پوٹلی میں لپیٹ کر کبھی کوٹھری میں چھپا دیا کبھی ٹانڈ پر رکھے دیگچے میں گرا دیا کہ پرے پرے رہیں چشم چرخ کبود ...