Taleef Haidar

تالیف حیدر

تالیف حیدر کی غزل

    درد آمیز ہے کچھ یوں مری خاموشی بھی

    درد آمیز ہے کچھ یوں مری خاموشی بھی راس آتی نہیں مجھ کو یہ خرد پوشی بھی کیسی حیرت ہے کہ اک میں ہی نہ بے ہوش رہا کیا تعجب ہے کہ چھاتی نہیں مدہوشی بھی یاد کا کون سا عالم ہے کہ میں مرتا ہوں اور زندہ ہے مرا خواب فراموشی بھی کس کی آنکھوں کا نشہ ہے کہ مرے ہونٹوں کو اس قدر تر نہیں کر سکتی ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر اپنی اسی ہاؤ ہو سے زندہ ہے

    یہ شہر اپنی اسی ہاؤ ہو سے زندہ ہے تمہاری اور مری گفتگو سے زندہ ہے کچھ اس قدر بھی برائی نہیں ہے مذہب میں جہان کلمۂ لا تقنطو سے زندہ ہے ہم اپنی نفس کشی کی طرف نہیں مائل کہ اپنا جسم تو بس آرزو سے زندہ ہے اب اس کے بعد بتائیں تو کیا بتائیں ہم تمام قصۂ من ہے کہ تو سے زندہ ہے ہم اس کے ...

    مزید پڑھیے

    ہم ہجر کے رستوں کی ہوا دیکھ رہے ہیں

    ہم ہجر کے رستوں کی ہوا دیکھ رہے ہیں منزل سے پرے دشت بلا دیکھ رہے ہیں اس شہر میں احساس کی دیوی نہیں رہتی ہر شخص کے چہرے کو نیا دیکھ رہے ہیں انکار بھی کرنے کا بہانہ نہیں ملتا اقرار بھی کرنے کا مزا دیکھ رہے ہیں تو ہے بھی نہیں اور نکلتا بھی نہیں ہے ہم خود کو رگ جاں کے سوا دیکھ رہے ...

    مزید پڑھیے

    آہستہ روی شہر کو کاہل نہ بنا دے

    آہستہ روی شہر کو کاہل نہ بنا دے خاموشئ غم خواب کا مائل نہ بنا دے اتنا بھی محبت کو نہ سوچے مری ہستی یہ معجزۂ فکر کہیں دل نہ بنا دے عیسیٰ نہیں پھر بھی مجھے اندیشہ ہے خود سے ہستی مری کچھ شعبدۂ گل نہ بنا دے اس طرح تجھے عشق کیا ہے کہ یہ دنیا ہم کو ہی کہیں عشق کا حاصل نہ بنا دے میں اس ...

    مزید پڑھیے

    پھر قصۂ شب لکھ دینے کے یہ دل حالات بنائے ہے

    پھر قصۂ شب لکھ دینے کے یہ دل حالات بنائے ہے ہر شعر ہمارا آخر کو تیری ہی بات بنائے ہے تم کو ہے بہت انکار تو تم بھی اس کی طرف جا کر دیکھو وہ شخص اماوس رات کو کیسے چاندنی رات بنائے ہے اب خواب میں بھی اس ظالم کو بس ہجر کا سودا رہتا ہے اے جذبۂ دل تو کس کے لیے یہ پھول اور پات بنائے ...

    مزید پڑھیے

    بہت مشکل تھا مجھ کو راہ کا ہموار کر دینا

    بہت مشکل تھا مجھ کو راہ کا ہموار کر دینا تو میں نے طے کیا اس دشت کو دیوار کر دینا تو کیوں اس بار اس نے میرے آگے سر جھکایا ہے اسے تو آج بھی مشکل نہ تھا انکار کر دینا پھر آخرکار یہ ثابت ہوا منظور تھا تجھ کو ہمارے عرصۂ ہستی کو بس بیکار کر دینا اسے ہے روز پانی کی طرح میری طرف آنا اور ...

    مزید پڑھیے

    نئی زمینوں کو ارض گماں بناتے ہیں

    نئی زمینوں کو ارض گماں بناتے ہیں خدا کے بعد کوئی سائباں بناتے ہیں وہ ایک لمحہ جسے تم نے مختصر جانا ہم ایسے لمحے میں اک داستاں بناتے ہیں پرانے رشتے پھر آنے لگے ہیں اپنے قریب نئے سرے سے چلو دوریاں بناتے ہیں خرد نہیں ہے یہاں بس جنون کا سودا ہم اس جنون سے آگے مکاں بناتے ہیں وہ عشق ...

    مزید پڑھیے

    نظارگئ شوق نے دیدار میں کھینچا

    نظارگئ شوق نے دیدار میں کھینچا پھر میں نے اسے اپنے ہوس زار میں کھینچا کھلتی نظر آتی ہے قبائے گل مقصد احساس طلب نے جو اسے خار میں کھینچا ہے دیدنی گل کارئ احساس و تخیل کیا عارض گل کو لب اظہار میں کھینچا تصویر سی اک بن گئی کیا جانیے کس کی قطروں نے نم اپنا مری دیوار میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا

    نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا ہمیں تو شوق ہے بس یوں ہی نے نوائی کا جب اس کو جاننے نکلے تو کچھ نہیں جانا خدا سے ہم کو بھی دعویٰ تھا آشنائی کا رہ حیات میں کوئی نہیں تو کیا شکوہ ہمیں گلہ ہے تو بس اپنی بے وفائی کا ہماری آنکھوں سے شبنم ٹپک رہی ہے ابھی یہی تو وقت ہے اس گل کی ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک شے مرے اندر تمام ہوتی ہوئی

    بس ایک شے مرے اندر تمام ہوتی ہوئی مری حکایت جاں سست گام ہوتی ہوئی میں رات اپنے بدن کی صدا سے لڑتا ہوا اور اس کی خامشی محو کلام ہوتی ہوئی یہ حرص شب ہے یا کوئی ہوائے ہستی ہے جو روز روز ہے یوں بے لگام ہوتی ہوئی بدی بڑی ہی ادا سے جہان ہستی میں خراب ہوتے ہوئے نیک نام ہوتی ہوئی عجیب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2