Takht Singh

تخت سنگھ

  • 1918

تخت سنگھ کی نظم

    2 قہقہہ

    عجب رات ہے حد نگاہ تک ہر سو اتھاہ زہر بھری چاندنی کی جھیل سی ہے ورائے مد نظر کہر ہے تخیل کی ورائے حد تخیل سیہ فصیل سی ہے سماں ہے ہو کا سڑک ہے سڑک کے دونو طرف قطار تا بہ افق ہے گھنے درختوں کی ہوا سنکتی ہے تو چونک چونک پڑتی ہیں ہر ایک پیڑ میں روحیں سی تیرہ بختوں کی کچھ ایسے گھور کے بس ...

    مزید پڑھیے

    بھول بھلیاں

    خوش تھی کشتی لگا کر گلے سے ہمیں یہ ہماری ہم اس کے نگہ دار تھے ہم مسافر سوار اس میں جتنے بھی تھے اس کی برقی ادا کے پرستار تھے اس کو شاید تھا معلوم اس سے فقط سپرد تفریح کے ہم طلب گار تھے لے گئی پل میں ان پانیوں تک ہمیں جو تلاطم کی لہروں سے کف دار تھے جنگلوں سے بھری سیدھی ڈھلواں پر حسن ...

    مزید پڑھیے

    قمقمہ ۱

    قمقمہ ہے کہ لب بام لیے بیٹھی ہے تیرگی اپنی ہتھیلی پہ اجالے کی ڈلی جس کو خود موج ہوا اوٹ کئے بیٹھی ہے نقش حیرت بنی تکتی ہے جسے اندھی گلی جیسے کچھ دور اندھیرے کی کسی ان جانی شاخ پہ خندہ بہ لب غنچہ خاموشی ہو رات کی گوش بر آواز فضا میں جیسے نرم نرم آنچ کی جاگی ہوئی سرگوشی ہو کاش یہ ...

    مزید پڑھیے

    سوغات

    کروڑوں جگوں سے مرے سامنے تھا بہت دور تک کھولتی دوریوں کا سمندر لجیلی سی چپ چاپ نیلاہٹوں کا سلگتا سا ساگر سمندر کے اس پار منڈ کے اوندھے کنویں میں کروڑوں جگوں کے سمے کی دھندلکوں میں لپٹی ہوئی پارو رشک تہوں کید ہویں میں لگن لگن کے لہکے ہوئے پیڑ کی جھولتی ڈالیوں پر اندھیروں کے شفاش ...

    مزید پڑھیے

    تیرے میرے جسم پر اسرار میں

    قبل ازیں کہ نارسا ادراک سے تہ بہ تہ ہونے نہ ہونے کے معنی کو تو سلجھانے لگے اس حقیقت کو سمجھ دفن تھا صدیوں سے جو زیر زمیں کیسے اس ایندھن کی گرمی کے طفیل بیچ پودے بن کے لہرانے لگے قبل ازیں کہ تیرا فکر موشگاف مغز انساں اور اعضائے بدن کے درمیاں ان ریشوں کے ہر ہر لچھے کے گرد جن میں دل ...

    مزید پڑھیے

    بھولی بسری رات

    پچھلی رات کا چاند دکھائی دیتا تھا کچھ یوں تاروں میں جیسے کوئی جان بوجھ کر کود رہا ہو انگاروں میں دھرتی سے آکاش تلک کرنوں کا سندر جال بچھا تھا راج تھا سپنوں کا سب جگ پر چھایا ہوا اک سناٹا تھا لہروں کی منہ زور سلوٹوں میں ندی بس گھول رہی تھی دھیمے دھیمے مدھر سروں میں شاید کچھ بول رہی ...

    مزید پڑھیے

    نیرنگ تصور

    سحر کا وقت ہے بیٹھا ہوں میں پھولوں کی محفل میں تلاطم خیز ہے موج ترنم قلزم دل میں جھلکتا ہے کسی کا حسن فردوس نظر بن کر کسی کے اشک سبزے پر مچلتے ہیں گہر بن کر کوئی آواز دیتا ہے مجھے بلبل کے نغموں میں اڑاتا ہے کوئی میری ہنسی چھپ چھپ کے پھولوں میں کسی کی آہ سوزاں کا دھواں گردوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک آواز

    ابھی ابھی ہی تو سپنے میں یوں لگا مجھ کو بلا رہی ہے کوئی ان سنی صدا مجھ کو مٹھاس اوڑھ کے دھیمی سی گنگناہٹ کی نہ جانے زیر لب آواز کہہ گئی ہے کیا ہنوز گوش بر آواز ہے دل حیراں کسی کی بات ادھوری ہی رہ گئی ہے کیا جھڑی تھی نیند کی ٹہنی سے جو صدا کی کلی خود آگہی کے تموج میں بہہ گئی ہے کیا عجب ...

    مزید پڑھیے

    ڈھلتی رات

    کون جانے کہ ابھی رات ہے کتنی باقی عمر ہنگامۂ ظلمات ہے کتنی باقی ابھی ہر سمت دھواں دھار گھٹا چھائی ہے پڑ رہی ہے ابھی آکاش سے تاریک پھوار ابھی زندان خموشی کے سیہ حجرے میں سن رہا ہوں کسی ناگن کی مسلسل پھنکار خوف سے دبکے ہوئے بیٹھے ہیں صدہا پنچھی تہہ بہ تہہ شاخوں کی تاریک گپھاؤں میں ...

    مزید پڑھیے