Takht Singh

تخت سنگھ

  • 1918

تخت سنگھ کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    ایک ایک قطرہ اس کا شعلہ فشاں سا ہے

    ایک ایک قطرہ اس کا شعلہ فشاں سا ہے موج صبا پہ ریگ رواں کا گماں سا ہے شاید یہی ہے حاصل عمر گریز پا پھیلا ہوا دماغ میں ہر سو دھواں سا ہے پھانکی ہے جب سے میں نے ترے روپ کی دھنک احساس رنگ و نور کا سیل رواں سا ہے ننھا سا تار افق پہ جو اب تک ہے ضو فشاں تاریکیٔ حیات پہ بار گراں سا ہے شب ...

    مزید پڑھیے

    مرے خیال کا سایہ جہاں پڑا ہوگا

    مرے خیال کا سایہ جہاں پڑا ہوگا برنگ رنگ طلسم رواں پڑا ہوگا وفور یاس میں امید جب جلی ہوگی سمے کی آنکھ میں کچھ تو دھواں پڑا ہوگا اتر گئی جو اندھیروں میں ہنس کے اس پہلی کرن کا پاؤں نہ جانے کہاں پڑا ہوگا شعور نو کے جب آئینے اڑ رہے ہوں گے عجیب عکس مہ و کہکشاں پڑا ہوگا ہر آہ سرد لبوں ...

    مزید پڑھیے

    دور تک پرچھائیاں سی ہیں رہ افکار پر

    دور تک پرچھائیاں سی ہیں رہ افکار پر رینگتی پھرتی ہے چپ دل کے در و دیوار پر تو کہ ہے بیٹھا خس اوہام کے انبار پر اس طرح مت ہنس مرے شعلہ بکف اشعار پر اے نظام وحشت افزا تیرے سناٹوں کی خیر اک کرن ہنسنے لگی ہے رات کی تلوار پر کرچنیں دل کی گھنی پلکوں پہ ہیں بکھری ہوئی آئنہ ٹوٹا پڑا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اشک تری یاد کا نقش کف پا ہے

    ہر اشک تری یاد کا نقش کف پا ہے ہر آہ ترے پاۓ تصور کی صدا ہے ہر ذرہ میں ہر پھول میں آئینہ پڑا ہے ہر سمت ترے عکس کا محشر سا بپا ہے اک ان سنی آواز سی آتی ہے کہیں سے اک پیکر موہوم سر دوش ہوا ہے یوں جھیل میں ضو ریز ترا سایہ ہے مانو پانی کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے پابندیٔ آداب سے ...

    مزید پڑھیے

9 نظم (Nazm)

    2 قہقہہ

    عجب رات ہے حد نگاہ تک ہر سو اتھاہ زہر بھری چاندنی کی جھیل سی ہے ورائے مد نظر کہر ہے تخیل کی ورائے حد تخیل سیہ فصیل سی ہے سماں ہے ہو کا سڑک ہے سڑک کے دونو طرف قطار تا بہ افق ہے گھنے درختوں کی ہوا سنکتی ہے تو چونک چونک پڑتی ہیں ہر ایک پیڑ میں روحیں سی تیرہ بختوں کی کچھ ایسے گھور کے بس ...

    مزید پڑھیے

    بھول بھلیاں

    خوش تھی کشتی لگا کر گلے سے ہمیں یہ ہماری ہم اس کے نگہ دار تھے ہم مسافر سوار اس میں جتنے بھی تھے اس کی برقی ادا کے پرستار تھے اس کو شاید تھا معلوم اس سے فقط سپرد تفریح کے ہم طلب گار تھے لے گئی پل میں ان پانیوں تک ہمیں جو تلاطم کی لہروں سے کف دار تھے جنگلوں سے بھری سیدھی ڈھلواں پر حسن ...

    مزید پڑھیے

    قمقمہ ۱

    قمقمہ ہے کہ لب بام لیے بیٹھی ہے تیرگی اپنی ہتھیلی پہ اجالے کی ڈلی جس کو خود موج ہوا اوٹ کئے بیٹھی ہے نقش حیرت بنی تکتی ہے جسے اندھی گلی جیسے کچھ دور اندھیرے کی کسی ان جانی شاخ پہ خندہ بہ لب غنچہ خاموشی ہو رات کی گوش بر آواز فضا میں جیسے نرم نرم آنچ کی جاگی ہوئی سرگوشی ہو کاش یہ ...

    مزید پڑھیے

    سوغات

    کروڑوں جگوں سے مرے سامنے تھا بہت دور تک کھولتی دوریوں کا سمندر لجیلی سی چپ چاپ نیلاہٹوں کا سلگتا سا ساگر سمندر کے اس پار منڈ کے اوندھے کنویں میں کروڑوں جگوں کے سمے کی دھندلکوں میں لپٹی ہوئی پارو رشک تہوں کید ہویں میں لگن لگن کے لہکے ہوئے پیڑ کی جھولتی ڈالیوں پر اندھیروں کے شفاش ...

    مزید پڑھیے

    تیرے میرے جسم پر اسرار میں

    قبل ازیں کہ نارسا ادراک سے تہ بہ تہ ہونے نہ ہونے کے معنی کو تو سلجھانے لگے اس حقیقت کو سمجھ دفن تھا صدیوں سے جو زیر زمیں کیسے اس ایندھن کی گرمی کے طفیل بیچ پودے بن کے لہرانے لگے قبل ازیں کہ تیرا فکر موشگاف مغز انساں اور اعضائے بدن کے درمیاں ان ریشوں کے ہر ہر لچھے کے گرد جن میں دل ...

    مزید پڑھیے

تمام