Takht Singh

تخت سنگھ

  • 1918

تخت سنگھ کی غزل

    ایک ایک قطرہ اس کا شعلہ فشاں سا ہے

    ایک ایک قطرہ اس کا شعلہ فشاں سا ہے موج صبا پہ ریگ رواں کا گماں سا ہے شاید یہی ہے حاصل عمر گریز پا پھیلا ہوا دماغ میں ہر سو دھواں سا ہے پھانکی ہے جب سے میں نے ترے روپ کی دھنک احساس رنگ و نور کا سیل رواں سا ہے ننھا سا تار افق پہ جو اب تک ہے ضو فشاں تاریکیٔ حیات پہ بار گراں سا ہے شب ...

    مزید پڑھیے

    مرے خیال کا سایہ جہاں پڑا ہوگا

    مرے خیال کا سایہ جہاں پڑا ہوگا برنگ رنگ طلسم رواں پڑا ہوگا وفور یاس میں امید جب جلی ہوگی سمے کی آنکھ میں کچھ تو دھواں پڑا ہوگا اتر گئی جو اندھیروں میں ہنس کے اس پہلی کرن کا پاؤں نہ جانے کہاں پڑا ہوگا شعور نو کے جب آئینے اڑ رہے ہوں گے عجیب عکس مہ و کہکشاں پڑا ہوگا ہر آہ سرد لبوں ...

    مزید پڑھیے

    دور تک پرچھائیاں سی ہیں رہ افکار پر

    دور تک پرچھائیاں سی ہیں رہ افکار پر رینگتی پھرتی ہے چپ دل کے در و دیوار پر تو کہ ہے بیٹھا خس اوہام کے انبار پر اس طرح مت ہنس مرے شعلہ بکف اشعار پر اے نظام وحشت افزا تیرے سناٹوں کی خیر اک کرن ہنسنے لگی ہے رات کی تلوار پر کرچنیں دل کی گھنی پلکوں پہ ہیں بکھری ہوئی آئنہ ٹوٹا پڑا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اشک تری یاد کا نقش کف پا ہے

    ہر اشک تری یاد کا نقش کف پا ہے ہر آہ ترے پاۓ تصور کی صدا ہے ہر ذرہ میں ہر پھول میں آئینہ پڑا ہے ہر سمت ترے عکس کا محشر سا بپا ہے اک ان سنی آواز سی آتی ہے کہیں سے اک پیکر موہوم سر دوش ہوا ہے یوں جھیل میں ضو ریز ترا سایہ ہے مانو پانی کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے پابندیٔ آداب سے ...

    مزید پڑھیے