تیمور حسن کی غزل

    مکاں سے ہوگا کبھی لا مکان سے ہوگا

    مکاں سے ہوگا کبھی لا مکان سے ہوگا مرا یہ معرکہ دونوں جہان سے ہوگا تو چھو سکے گا بلندی کی کن منازل کو یہ فیصلہ تری پہلی اڑان سے ہوگا اٹھے ہیں اس کی طرف کس لیے یہ ہاتھ مرے کوئی تو ربط مرا آسمان سے ہوگا یہ جنگ جیت ہے کس کی یہ ہار کس کی ہے یہ فیصلہ مری ٹوٹی کمان سے ہوگا بنا پڑے گی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا

    مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا میرے تحفظات حفاظت سے ہیں جڑے میرے تحفظات مٹا شہر کو بچا تو اس لیے ہے شہر کا حاکم کہ شہر ہے اس کی بقا میں تیری بقا شہر کو بچا تو جاگ جائے گا تو سبھی جاگ جائیں گے اے شہریار جاگ ذرا شہر کو بچا تو چاہتا ہے گھر ترا ...

    مزید پڑھیے

    تجھے خبر ہے تجھے ستاتا ہوں اس بنا پر

    تجھے خبر ہے تجھے ستاتا ہوں اس بنا پر تو بولتا ہے تو حظ اٹھاتا ہوں اس بنا پر مرا لہو میری آستیں پر لگا ہوا ہے میں اپنا قاتل قرار پاتا ہوں اس بنا پر کبھی کبھی حال کے حقائق مجھے ستائیں میں اپنے ماضی میں رہنے جاتا ہوں اس بنا پر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر میرا علم پرکھیں میں اپنے بچوں ...

    مزید پڑھیے

    بہار آنے کی امید کے خمار میں تھا

    بہار آنے کی امید کے خمار میں تھا خزاں کے دور میں بھی موسم بہار میں تھا جسے سنانے گیا تھا میں زندگی کی نوید وہ شخص آخری ہچکی کے انتظار میں تھا سپاہ عقل و خرد مجھ پہ حملہ آور تھی مگر میں عشق کے مضبوط تر حصار میں تھا مرا نصیب چمکتا بھی کس طرح آخر مرا ستارا کسی دوسرے مدار میں ...

    مزید پڑھیے

    بہاؤں گا نہ میں آنسو نہ مسکراؤں گا

    بہاؤں گا نہ میں آنسو نہ مسکراؤں گا خموش رہ کے سلیقے سے غم مناؤں گا کروں گا کام وہی جو دیا گیا ہے مجھے میں خواب دیکھوں گا اور خواب ہی دکھاؤں گا ادھوری بات بھی پوری سمجھنی ہوگی تمہیں میں کچھ بتاؤں گا اور کچھ نہیں بتاؤں گا میں آج تک نہیں مانا ہوں تیری دنیا کو تو مان جائے تو میں اس ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو ممکن نہ ہو ممکن یہ بنا دیتا ہے

    وہ جو ممکن نہ ہو ممکن یہ بنا دیتا ہے خواب دریا کے کناروں کو ملا دیتا ہے زندگی بھر کی ریاضت مری بیکار گئی اک خیال آیا تھا بدلے میں وہ کیا دیتا ہے اب مجھے لگتا ہے دشمن مرا اپنا چہرہ مجھ سے پہلے یہ مرا حال بتا دیتا ہے چند جملے وہ ادا کرتا ہے ایسے ڈھب سے میرے افکار کی بنیاد ہلا دیتا ...

    مزید پڑھیے

    میں نے بخش دی تری کیوں خطا تجھے علم ہے

    میں نے بخش دی تری کیوں خطا تجھے علم ہے تجھے دی ہے کتنی کڑی سزا تجھے علم ہے میں سمجھتا تھا تو ہے اپنے حسن سے بے خبر تری اک ادا نے بتا دیا تجھے علم ہے مجھے زندگی کے قریب لے گئی جستجو مری جستجو بھلا کون تھا تجھے علم ہے میں نے دل کی بات کبھی نہ کی ترے سامنے مجھے عمر بھر یہ گماں رہا ...

    مزید پڑھیے

    اتار لفظوں کا اک ذخیرہ غزل کو تازہ خیال دے دے

    اتار لفظوں کا اک ذخیرہ غزل کو تازہ خیال دے دے خود اپنی شہرت پہ رشک آئے سخن میں ایسا کمال دے دے ستارے تسخیر کرنے والا پڑوسیوں سے بھی بے خبر ہے اگر یہی ہے عروج آدم تو پھر ہمیں تو زوال دے دے تری طرف سے جواب آئے نہ آئے پروا نہیں ہے اس کی یہی بہت ہے کہ ہم کو یا رب تو صرف اذن سوال دے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2