تیمور حسن کی غزل

    یہ لوگ کرتے ہیں منسوب جو بیاں تجھ سے

    یہ لوگ کرتے ہیں منسوب جو بیاں تجھ سے سمجھتے ہیں مجھے کر دیں گے بد گماں تجھ سے جہاں جہاں مجھے تیری انا بچانا تھی شکست کھائی ہے میں نے وہاں وہاں تجھ سے مرے شجر مجھے بازو ہلا کے رخصت کر کہاں ملیں گے بھلا مجھ کو مہرباں تجھ سے خدا کرے کہ ہو تعبیر خواب کی اچھی ملا ہوں رات میں پھولوں ...

    مزید پڑھیے

    ہجر بخشا کبھی وصال دیا

    ہجر بخشا کبھی وصال دیا عشق نے جو دیا کمال دیا ایک خط جو سنبھالنا تھا مجھے جانے میں نے کہاں سنبھال دیا شکر اس کا کروں ادا کیسے جس نے حیرت دی اور سوال دیا میری قسمت کا فیصلہ اس نے معرض التوا میں ڈال دیا خود کیا فیصلہ خلاف اپنے مشکلوں سے اسے نکال دیا سب کو دل کی بتاتا تھا ...

    مزید پڑھیے

    وہ کم سخن نہ تھا پر بات سوچ کر کرتا

    وہ کم سخن نہ تھا پر بات سوچ کر کرتا یہی سلیقہ اسے سب میں معتبر کرتا نہ جانے کتنی غلط فہمیاں جنم لیتیں میں اصل بات سے پہلو تہی اگر کرتا میں سوچتا ہوں کہاں بات اس قدر بڑھتی اگر میں تیرے رویے سے در گزر کرتا مرا عدو تو تھا علم الکلام کا ماہر مرے خلاف زمانے کو بول کر کرتا اکیلے جنگ ...

    مزید پڑھیے

    نہیں اڑاؤں گا خاک رویا نہیں کروں گا

    نہیں اڑاؤں گا خاک رویا نہیں کروں گا کروں گا میں عشق پر تماشا نہیں کروں گا مری محبت بھی خاص ہے کیونکہ خاص ہوں میں سو عام لوگوں میں ذکر اس کا نہیں کروں گا اسے بتاؤ فرار کا نام تو نہیں عشق جو کہہ رہا ہے میں کار دنیا نہیں کروں گا کبھی نہ سوچا تھا گفتگو بھی کروں گا گھنٹوں اور اپنی ...

    مزید پڑھیے

    ایک منزل ہے ایک جادہ ہے

    ایک منزل ہے ایک جادہ ہے زندگی میری کتنی سادہ ہے تو مجھے اپنا ایک پل دے گا یہ کرم مجھ پہ کچھ زیادہ ہے جو رکے ہیں سوار ہیں سارے چلنے والا تو پا پیادہ ہے صدق دل سے پکارنا مجھ کو لوٹ آؤں گا میرا وعدہ ہے پھر جو کرنے لگا ہے تو وعدہ کیا مکرنے کا پھر ارادہ ہے ظرف دنیا جو تنگ ہے ...

    مزید پڑھیے

    تم کوئی اس سے توقع نہ لگانا مرے دوست

    تم کوئی اس سے توقع نہ لگانا مرے دوست یہ زمانہ ہے زمانہ ہے زمانہ مرے دوست سامنے تو ہو تصور میں کہانی کوئی اک حقیقت سے بڑا ایک فسانہ مرے دوست میرے بیٹے میں تمہیں دوست سمجھنے لگا ہوں تم بڑے ہو کے مجھے دنیا دکھانا مرے دوست دیکھ سکتا بھی نہیں مجھ کو ضرورت بھی نہیں میری تصویر مگر اس ...

    مزید پڑھیے

    مرا باطن مجھے ہر پل نئی دنیا دکھاتا ہے

    مرا باطن مجھے ہر پل نئی دنیا دکھاتا ہے کسی نادیدہ منزل کا کوئی رستا دکھاتا ہے خدا بھی زندگی دیتا ہے بس اک رات کی ہم کو اسی اک رات میں لیکن خدا کیا کیا دکھاتا ہے ذرا تم دیس کے اس رہنما کے کام تو دیکھو شجر کو کاٹتا ہے خواب سائے کا دکھاتا ہے بہت سی خوبیاں ہیں آئنے میں مانتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم دنیا سے جب تنگ آیا کرتے ہیں

    ہم دنیا سے جب تنگ آیا کرتے ہیں اپنے ساتھ اک شام منایا کرتے ہیں سورج کے اس جانب بسنے والے لوگ اکثر ہم کو پاس بلایا کرتے ہیں یوں ہی خود سے روٹھا کرتے ہیں پہلے دیر تلک پھر خود کو منایا کرتے ہیں چپ رہتے ہیں اس کے سامنے جا کر ہم یوں اس کو چکھ یاد دلایا کرتے ہیں نیندوں کے ویران جزیرے ...

    مزید پڑھیے

    موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں

    موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں دریا ترے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں مجھ میں اور اس میں صرف مقدر کا فرق ہے ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں اس کی تو سوچ دنیا میں جس کا کوئی نہیں تو کس لیے ...

    مزید پڑھیے

    وفا کا ذکر چھڑا تھا کہ رات بیت گئی

    وفا کا ذکر چھڑا تھا کہ رات بیت گئی ابھی تو رنگ جما تھا کہ رات بیت گئی مری طرف چلی آتی ہے نیند خواب لیے ابھی یہ مژدہ سنا تھا کہ رات بیت گئی میں رات زیست کا قصہ سنانے بیٹھ گیا ابھی شروع کیا تھا کہ رات بیت گئی یہاں تو چاروں طرف اب تلک اندھیرا ہے کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ رات بیت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2