Tabish Kamal

تابش کمال

تابش کمال کی نظم

    قصۂ شب

    سرخ آنکھیں گھماتے ہوئے بھیڑیے رات کا حسن ہیں سرسراتے ہوئے شاخچوں میں چھپے ماندہ پنچھی مصلے پہ بیٹھے ہوئے ریش دار اہل باطن پنگھوڑے میں کلکارتے نور چہرے یہ بستر بدلتی ہوئی لڑکیاں زہر اگلتے ہوئے سانپ دیوار پر جست کرتے ہوئے سائے لڑتی ہوئی بلیاں رات کا حسن ہیں اپنے سر پر یہ صدیوں سے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سے تم مجھے آواز دیتی ہو

    غبار شام کے بے عکس منظر میں ہوا کی سائیں سائیں پنچھیوں کو ہانکتی ہے دور چرواہے کی بنسی میں ملن رس کا سریلا ذائقہ ہے، رات رستے میں کہاں سے تم مجھے آواز دیتی ہو! مسلسل آہٹیں میری سماعت ہی نہ لے جائیں بچا رکھے ہوئے آنسو کی بینائی ٹپکتی ہے انہیں لفظوں کی لو میں رات کٹتی ہے جنہیں ...

    مزید پڑھیے

    دیو مالائیں سچی ہوتی ہیں

    گھڑی دو گھڑی کی مسرت یہ صدیوں پہ پھیلا ہوا دیو قصہ ہمارے لہو میں رواں ہے کسی گھونسلے میں سے انڈے چراتا ہوا سورما ایک چیتے سے گر سیکھتا کوئی بچہ کماں کھینچتا اور مادہ کو ناوک سے نیچے گراتا ہوا آگ دریافت کرتا ہوا کوئی لڑکا عجب صورتیں ہیں شب داستاں گوئی صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہے ہوا ...

    مزید پڑھیے

    شاعروں کا جبر

    چائے کی بھاپ میں گھلتے، معدوم ہوتے ہوئے قہقہے شام کا بانکپن کوئی مصرع دھوئیں کے بگولوں میں کمپوز ہوتا ہوا کوئی نکتہ جو اسرار کے گھپ اندھیرے سے شعلہ صفت سر اٹھائے عجب دھیما دھیما نشہ اختلافات کا اپنے نچلے سروں میں کوئی فکر مربوط کرتا ہوا زاویہ طنز کے ناوک خوش سلیقہ کی سن ...

    مزید پڑھیے

    Dimensions

    وہی بہار و خزاں ہے مجھ میں بھی مجھ سے باہر بھی (آدمی سے الگ نہیں ہوں) شگوفے پھوٹیں تو خون میں گیت بولتے ہیں کبھی کبھی خار کی کھٹک ٹیس بن کے ہونٹوں سے جھانکتی ہے نجانے کتنے ہی گیت تھے جو بہار سے پہلے شاخ کی رگ میں جی رہے تھے جڑوں کا بخل ان کو کھا گیا ہے یہ خار، سوتیلے بیٹے شاخوں کے ان ...

    مزید پڑھیے

    بے گھری

    خواب کی سلطنت سے ادھر اک جہاں ہے جسے آنکھ آباد کر لے تو کر لے وہاں سائے ہی سائے ہیں اکثر و بیشتر دھوپ میں رقص کرتے ہوئے ریز گاری کی آواز پر دھڑکنیں تال دیتی ہیں تو جھلملاتے ہیں آنکھوں میں خواب (اپنا گھر اس کے دار الخلافے میں ہے) صبح سے شام تک نوٹ گنتی ہوئی انگلیاں یوں تھرکتی ...

    مزید پڑھیے

    بالجبر

    ہر طرف کترنیں ہیں وہ گڑیا یہیں تھی مگر اب دکھائی نہیں دے رہی اور یہ دھاگے، یقیناً وہ گیسو ہیں جن کے لیے میری راتیں کٹیں روئی دھنکی ہوئی ہے کہیں خون کا کوئی دھبہ نہیں اک طرف اس کی پوشاک ادھڑی پڑی ہے ادھر اس کی آنکھیں، کٹے ابروؤں سے الگ، خوف و دہشت میں لتھڑی ہوئی ہر طرف کترنیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک بزرگ شاعر پرندے کا تجربہ

    عزیزو! اگر رات رستے میں آئے اگر دانہ و دام کا سحر جاگے اگر اڑتے اڑتے کسی روز تم آشیاں بھول جاؤ تو پچھلی کہانی میں موجود جگنو سے دھوکا نہ کھانا کہانی، نہیں دیکھتی غم کے نم کو کہانی نہیں جانتی کیف و کم کو کہانی کو وہم و گماں کی کٹھن راہ سے کون روکے کہانی کا پیرایہ خواہش کا قیدی ...

    مزید پڑھیے

    کہاں آ گئی ہو

    چند سال اس طرف ہم شناسا نگاہوں سے بچتے بچاتے یہیں پر ملے تھے تمہیں یاد ہے کائنات ایک ٹیبل کے چاروں طرف گھومتی تھی ہمیں دیکھ کر کتنے بوڑھوں کی آنکھیں کسی یاد رفتہ میں نم ہو رہی تھی مگر میں نے آنکھوں میں اپنے لیے اور تمہارے لیے مچھلیوں کی طرح تیرتے آنسوؤں میں تمنائیں دیکھیں مجھے ...

    مزید پڑھیے

    ساربان

    کھجوروں سے مہکی ہوئی شام تھی شتر پر مال و اسباب تھا اور میں اک سرائے کے در پر کھڑا رات کرنے کو اک بوریے کا طلب گار تھا ٹمٹماتی ہوئی شمع کی لو میں ابن تمامہ کا سایہ (جو ماحول گھیرے ہوئے تھا) اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے وہ روشنی پھانکتا ہو قوی الجسامت حریص آنکھ سے لحظہ لحظہ ٹپکتی کمینی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2