Tabish Kamal

تابش کمال

تابش کمال کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا

    کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا ہاں مگر اس نگر نہیں رہتا تو ہو تیرا خیال ہو یا خواب کوئی بھی رات بھر نہیں رہتا جب سکوں ہی نہ دے سکے تو پھر گھر کسی طور گھر نہیں رہتا جس گھڑی چاہو تم چلے آؤ میں کوئی چاند پر نہیں رہتا یوں تو اپنی بھی جستجو ہے مجھے تجھ سے بھی بے خبر نہیں رہتا دل فگاروں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے

    عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے نگاہ دیکھ رہی تھی کہ گھر کچھ اور سے تھے وہ آشیانے نہیں تھے جہاں پہ چڑیاں تھیں شجر کچھ اور سے ان پر ثمر کچھ اور سے تھے تمام کشتیاں منجدھار میں گھری ہوئی تھیں ہر ایک لہر میں بنتے بھنور کچھ اور سے تھے بہت بدل گیا میدان جنگ کا نقشہ وہ دھڑ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا ڈوبنا مشکل نہیں تھا

    ہمارا ڈوبنا مشکل نہیں تھا نظر میں دور تک ساحل نہیں تھا کہاں تھا گفتگو کرتے ہوئے وہ وہ تھا بھی تو سر محفل نہیں تھا میں اس کو سب سے بہتر جانتا ہوں جسے میرا پتہ حاصل نہیں تھا زمانے سے الگ تھی میری دنیا میں اس کی دوڑ میں شامل نہیں تھا وہ پتھر بھی تھا کتنا خوبصورت جو آئینہ تھا لیکن ...

    مزید پڑھیے

    یقیں سے جو گماں کا فاصلہ ہے

    یقیں سے جو گماں کا فاصلہ ہے زمیں سے آسماں کا فاصلہ ہے ہوا پیمائی کی خواہش ہے اتنی کہ جتنا بادباں کا فاصلہ ہے خیالات اس قدر ہیں مختلف کیوں ہمارے درمیاں کا فاصلہ ہے کوئی اظہار کر سکتا ہے کیسے یہ لفظوں سے زباں کا فاصلہ ہے میں اس تک کس طرح پہنچوں گا تابشؔ یہاں سے اس جہاں کا فاصلہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے

    نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے ہمیں آخر وہ کیوں ملتا نہیں ہے محبت کے لیے جذبہ ہے لازم یہ آئینہ تو یوں ملتا نہیں ہے ہم اک مدت سے در پر منتظر ہیں مگر اذن جنوں ملتا نہیں ہے ہے جتنا ظرف اتنی پاسداری ضرورت ہے فزوں ملتا نہیں ہے عجب ہوتی ہے آئندہ ملاقات ہمیشہ جوں کا توں ملتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

11 نظم (Nazm)

    قصۂ شب

    سرخ آنکھیں گھماتے ہوئے بھیڑیے رات کا حسن ہیں سرسراتے ہوئے شاخچوں میں چھپے ماندہ پنچھی مصلے پہ بیٹھے ہوئے ریش دار اہل باطن پنگھوڑے میں کلکارتے نور چہرے یہ بستر بدلتی ہوئی لڑکیاں زہر اگلتے ہوئے سانپ دیوار پر جست کرتے ہوئے سائے لڑتی ہوئی بلیاں رات کا حسن ہیں اپنے سر پر یہ صدیوں سے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سے تم مجھے آواز دیتی ہو

    غبار شام کے بے عکس منظر میں ہوا کی سائیں سائیں پنچھیوں کو ہانکتی ہے دور چرواہے کی بنسی میں ملن رس کا سریلا ذائقہ ہے، رات رستے میں کہاں سے تم مجھے آواز دیتی ہو! مسلسل آہٹیں میری سماعت ہی نہ لے جائیں بچا رکھے ہوئے آنسو کی بینائی ٹپکتی ہے انہیں لفظوں کی لو میں رات کٹتی ہے جنہیں ...

    مزید پڑھیے

    دیو مالائیں سچی ہوتی ہیں

    گھڑی دو گھڑی کی مسرت یہ صدیوں پہ پھیلا ہوا دیو قصہ ہمارے لہو میں رواں ہے کسی گھونسلے میں سے انڈے چراتا ہوا سورما ایک چیتے سے گر سیکھتا کوئی بچہ کماں کھینچتا اور مادہ کو ناوک سے نیچے گراتا ہوا آگ دریافت کرتا ہوا کوئی لڑکا عجب صورتیں ہیں شب داستاں گوئی صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہے ہوا ...

    مزید پڑھیے

    شاعروں کا جبر

    چائے کی بھاپ میں گھلتے، معدوم ہوتے ہوئے قہقہے شام کا بانکپن کوئی مصرع دھوئیں کے بگولوں میں کمپوز ہوتا ہوا کوئی نکتہ جو اسرار کے گھپ اندھیرے سے شعلہ صفت سر اٹھائے عجب دھیما دھیما نشہ اختلافات کا اپنے نچلے سروں میں کوئی فکر مربوط کرتا ہوا زاویہ طنز کے ناوک خوش سلیقہ کی سن ...

    مزید پڑھیے

    Dimensions

    وہی بہار و خزاں ہے مجھ میں بھی مجھ سے باہر بھی (آدمی سے الگ نہیں ہوں) شگوفے پھوٹیں تو خون میں گیت بولتے ہیں کبھی کبھی خار کی کھٹک ٹیس بن کے ہونٹوں سے جھانکتی ہے نجانے کتنے ہی گیت تھے جو بہار سے پہلے شاخ کی رگ میں جی رہے تھے جڑوں کا بخل ان کو کھا گیا ہے یہ خار، سوتیلے بیٹے شاخوں کے ان ...

    مزید پڑھیے

تمام