Tabish Kamal

تابش کمال

تابش کمال کی غزل

    کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا

    کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا ہاں مگر اس نگر نہیں رہتا تو ہو تیرا خیال ہو یا خواب کوئی بھی رات بھر نہیں رہتا جب سکوں ہی نہ دے سکے تو پھر گھر کسی طور گھر نہیں رہتا جس گھڑی چاہو تم چلے آؤ میں کوئی چاند پر نہیں رہتا یوں تو اپنی بھی جستجو ہے مجھے تجھ سے بھی بے خبر نہیں رہتا دل فگاروں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے

    عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے نگاہ دیکھ رہی تھی کہ گھر کچھ اور سے تھے وہ آشیانے نہیں تھے جہاں پہ چڑیاں تھیں شجر کچھ اور سے ان پر ثمر کچھ اور سے تھے تمام کشتیاں منجدھار میں گھری ہوئی تھیں ہر ایک لہر میں بنتے بھنور کچھ اور سے تھے بہت بدل گیا میدان جنگ کا نقشہ وہ دھڑ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا ڈوبنا مشکل نہیں تھا

    ہمارا ڈوبنا مشکل نہیں تھا نظر میں دور تک ساحل نہیں تھا کہاں تھا گفتگو کرتے ہوئے وہ وہ تھا بھی تو سر محفل نہیں تھا میں اس کو سب سے بہتر جانتا ہوں جسے میرا پتہ حاصل نہیں تھا زمانے سے الگ تھی میری دنیا میں اس کی دوڑ میں شامل نہیں تھا وہ پتھر بھی تھا کتنا خوبصورت جو آئینہ تھا لیکن ...

    مزید پڑھیے

    یقیں سے جو گماں کا فاصلہ ہے

    یقیں سے جو گماں کا فاصلہ ہے زمیں سے آسماں کا فاصلہ ہے ہوا پیمائی کی خواہش ہے اتنی کہ جتنا بادباں کا فاصلہ ہے خیالات اس قدر ہیں مختلف کیوں ہمارے درمیاں کا فاصلہ ہے کوئی اظہار کر سکتا ہے کیسے یہ لفظوں سے زباں کا فاصلہ ہے میں اس تک کس طرح پہنچوں گا تابشؔ یہاں سے اس جہاں کا فاصلہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے

    نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے ہمیں آخر وہ کیوں ملتا نہیں ہے محبت کے لیے جذبہ ہے لازم یہ آئینہ تو یوں ملتا نہیں ہے ہم اک مدت سے در پر منتظر ہیں مگر اذن جنوں ملتا نہیں ہے ہے جتنا ظرف اتنی پاسداری ضرورت ہے فزوں ملتا نہیں ہے عجب ہوتی ہے آئندہ ملاقات ہمیشہ جوں کا توں ملتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کب کھلے گا کہ فلک پار سے آگے کیا ہے

    کب کھلے گا کہ فلک پار سے آگے کیا ہے کس کو معلوم کہ دیوار سے آگے کیا ہے ایک طرہ سا تو میں دیکھ رہا ہوں لیکن کوئی بتلائے کہ دستار سے آگے کیا ہے ظلم یہ ہے کہ یہاں بکتا ہے یوسف بے دام اور نہیں جانتا بازار سے آگے کیا ہے سر میں سودا ہے کہ اک بار تو دیکھوں جا کر سر میدان سجی دار سے آگے ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا

    یہ شہر آفتوں سے تو خالی کوئی نہ تھا جب ہم سخی ہوئے تو سوالی کوئی نہ تھا لکھا ہے داستاں میں کہ گلشن اجڑتے وقت گلچیں بے شمار تھے مالی کوئی نہ تھا اس دشت میں مرا ہی ہیولیٰ تھا ہر طرف میں نے ہی شمع عشق جلا لی کوئی نہ تھا جلسے اجڑ گئے تھے کسی خود فریب کے خود ہی بجا رہا تھا وہ تالی کوئی ...

    مزید پڑھیے

    عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا

    عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا وہ بات کرتے ہوئے بھی نئی اڑان میں تھا ہوا بھری ہوئی پھرتی تھی اب کے ساحل پر کچھ ایسا حوصلہ کشتی کے بادبان میں تھا ہمارے بھیگے ہوئے پر نہیں کھلے ورنہ ہمیں بلاتا ستارہ تو آسمان میں تھا اتر گیا ہے رگ و پے میں ذائقہ اس کا عجیب شہد سا کل رات اس زبان ...

    مزید پڑھیے