Tabassum Rizvi

تبسم رضوی

تبسم رضوی کی غزل

    موج خوں سر سے گزرتی ہے گزر جانے دو

    موج خوں سر سے گزرتی ہے گزر جانے دو کہیں یہ گردش ایام ٹھہر جانے دو اٹھنے والی ہے کوئی دم میں ستاروں کی بساط اور کچھ دیر کا نشہ ہے اتر جانے دو راہ میں روک کے احوال نہ پوچھو ہم سے ابھی باقی ہے بہت اپنا سفر جانے دو ابھی ہنگام نہیں راہ میں دم لینے کا ابھی یہ قافلۂ اہل نظر جانے دو لب ...

    مزید پڑھیے

    اشکوں کے گہر یوں سر مژگاں بھی نہ تولیں

    اشکوں کے گہر یوں سر مژگاں بھی نہ تولیں ان آنکھوں سے کہہ دو کہ ابھی راز نہ کھولیں تسکین دل و جاں کی تو نکلے کوئی صورت اس نیزۂ مژگاں کی انی دل چبھو لیں آنکھوں سے کریں کیا تنک آبی کی شکایت دل ہی کے لہو سے کبھی پلکوں کو بھگو لیں چاہت تو ہر اک بات سے ظاہر ہے اب ان کی ہر چند زباں سے نہ ...

    مزید پڑھیے