اشکوں کے گہر یوں سر مژگاں بھی نہ تولیں

اشکوں کے گہر یوں سر مژگاں بھی نہ تولیں
ان آنکھوں سے کہہ دو کہ ابھی راز نہ کھولیں


تسکین دل و جاں کی تو نکلے کوئی صورت
اس نیزۂ مژگاں کی انی دل چبھو لیں


آنکھوں سے کریں کیا تنک آبی کی شکایت
دل ہی کے لہو سے کبھی پلکوں کو بھگو لیں


چاہت تو ہر اک بات سے ظاہر ہے اب ان کی
ہر چند زباں سے نہ کہیں منہ سے نہ بولیں


قسمت میں اگر تم سے بچھڑنا ہی لکھا ہے
اک بار تمہیں اپنے سے لپٹا کے تو رو لیں