Syed Mohammad Askari Arif

سید محمد عسکری عارف

سید محمد عسکری عارف کی غزل

    غم ہائے روزگار سے فرصت نہیں مجھے

    غم ہائے روزگار سے فرصت نہیں مجھے میں کیسے کہہ دوں تم سے محبت نہیں مجھے اپنو کی سازشوں سے ہی مصروف جنگ ہوں غیروں سے دشمنی کی ضرورت نہیں مجھے دل میں ابھی چبھے ہیں وہ الفاظ تیر سے تو نے کہا تھا جب تری چاہت نہیں مجھے پنہاں ہیں کنج دل میں کئی درد لا دوا بے وجہ مسکرانے کی عادت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    حال بیداری میں رہ کر بھی میں خوابوں میں رہا

    حال بیداری میں رہ کر بھی میں خوابوں میں رہا جیسے پیاسا کوئی اک عمر سرابوں میں رہا مری خوشبو سے معطر تھا گلستان وفا خار مانند مرا یار گلابوں میں رہا گفتگو تک رہی محدود ملاقات اپنی مرا محبوب شب وصل حجابوں میں رہا اب مجھے خاک نشینی کا شرف حاصل ہے یہ الگ بات ہے کل تک میں نوابوں ...

    مزید پڑھیے

    درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد

    درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد ہم تو جلتے ہیں چراغوں کی طرح شام کے بعد بس یہی سوچ کے اکثر میں لرز جاتا ہوں جانے کیا ہوگا مرا حشر کے ہنگام کے بعد عشق کر بیٹھے مگر ہم نے یہ سوچا ہی نہیں خاک ہو جائیں گے ہم عشق کے انجام کے بعد لکھ کے کاغذ پہ ترا نام قلم توڑ دیا کوئی بھایا ہی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے مانا کہ ملاقات نہیں ہو سکتی

    میں نے مانا کہ ملاقات نہیں ہو سکتی تو کیا اب تم سے کوئی بات نہیں ہو سکتی دل میں روشن ہیں مری جاں تری یادوں کے چراغ شہر الفت میں کبھی رات نہیں ہو سکتی باطن قلب و جگر میں ہی بسا لے مجھ کو ظاہراً گر تو مرے ساتھ نہیں ہو سکتی اس کا شیوہ ہے محبت میں بغاوت کرنا معتبر اس کی کبھی ذات نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل کی دھڑکن تھم گئی درد نہاں بڑھتا گیا

    دل کی دھڑکن تھم گئی درد نہاں بڑھتا گیا جل گئی ہستی مری لیکن دھواں بڑھتا گیا زندگی تو ہی بتا کس جا مجھے لے کر چلی اجنبی رستوں پہ آخر میں کہاں بڑھتا گیا دشت وحشت میں جلا کر ظلمتوں کی بستیاں روشنی کی سمت میرا کارواں بڑھتا گیا اپنی بربادی کا ذمے دار میں یا کوئی اور ذہن میں ہر وقت ...

    مزید پڑھیے

    عشق تجدید کر کے دیکھتے ہیں

    عشق تجدید کر کے دیکھتے ہیں پھر سے امید کر کے دیکھتے ہیں قتل کرتے ہیں اپنی ہستی کا اور پھر عید کر کے دیکھتے ہیں اس کی تنقید کرنے سے پہلے اپنی تنقید کر کے دیکھتے ہیں روز ہنستے ہیں مسکراتے ہیں آج نم دید کر کے دیکھتے ہیں کچھ نہ حاصل ہوا غزل کہہ کر آؤ تمجید کر کے دیکھتے ہیں وصف ...

    مزید پڑھیے

    موت ہے زندگی زندگی موت ہے

    موت ہے زندگی زندگی موت ہے ہر نفس موت ہے ہر گھڑی موت ہے میں اندھیروں میں کھو جاؤں ممکن نہیں ایک پروانے کی روشنی موت ہے اس لئے شاد رہتا ہوں ہر حال میں میرے دشمن کو میری خوشی موت ہے کوئی تلوار خنجر نہ تیر و تبر حرملہ کے لئے اک ہنسی موت ہے خامشی عاقلوں کی ہے خوبی مگر بعض اوقات پر ...

    مزید پڑھیے

    آسماں کو زمیں بناتے ہیں

    آسماں کو زمیں بناتے ہیں ہم گماں کو یقیں بناتے ہیں ہو جہاں ساکنان شہر وفا آشیاں ہم وہیں بناتے ہیں محو غفلت ہیں اہل دنیا سب آخرت اہل دیں بناتے ہیں وہ تو اہل نظر بلا شک ہے ہم جسے ہم نشیں بناتے ہیں ہم نگیں ساز تو نہیں لیکن کنکروں کو نگیں بناتے ہیں عقل و علم و ہنر کے سانچے ...

    مزید پڑھیے

    ہو گیا پائمال آنکھوں میں

    ہو گیا پائمال آنکھوں میں مر گیا اک سوال آنکھوں میں اس کی دو بے مثال آنکھوں حسن تھا با کمال آنکھوں میں کیا بچا پر ملال آنکھوں میں ہے فقط خون لال آنکھوں میں عشق اول ہے ذہن میں جاناں جو ہوا تیرے نال آنکھوں میں جن سے نکلی ہو آنسوؤں کی ندی تم نے دیکھا وہ تال آنکھوں میں جنگ جاری ہے ...

    مزید پڑھیے

    ظلم مجھ پر شدید کر بیٹھے

    ظلم مجھ پر شدید کر بیٹھے پھر وو کار یزید کر بیٹھے ہے وفائی بھی وو نبھا نہ سکے ہم وفا کی امید کر بیٹھے جن پہ مرتا تھا تو وہ صد افسوس مرے مرنے پہ عید کر بیٹھے کس قدر خوش نصیب ہوگا وو جو تری خوابوں میں دید کر بیٹھے ہم تھے خوشیوں کو بیچنے نکلے درد و غم کی خرید کر بیٹھے کاش نفرت کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2