Syed Ali Zaheer

سید علی ظہیر

سید علی ظہیر کی نظم

    ہر امید کا تارا

    ہری جالی کے پیچھے سبز سیارہ زمرد آسماں میں جو بولوں خواب کی صورت نظر آؤں میں جو چوموں موم کی صورت پگھل جاؤں ہری جالی ہرا گنبد ہر امید کا تارا خدایا اس جگہ جبریل آتے تھے خدایا اس جگہ آیت اترتی تھی جو بولوں خواب کی صورت نظر آؤں جو چوموں موم کی صورت پگھل جاؤں

    مزید پڑھیے

    وقت کو ناپ لیں

    وقت کو ناپ لیں دیکھ لیں کس کے چہرے پہ پرچھائیں ہے شام کی جیسے جیسے یہ شامیں گزرتی ہیں ہم پل سے پل جھانکتے اس ندی کے سرے کو گنواتے چلے جا رہے ہیں عجب طرح لوگ اپنے اپنے خیالوں کو جسموں میں بانٹے ہوئے ہیں خیالوں کو جسموں میں بانٹوں کہ ڈھالوں

    مزید پڑھیے

    سفید لمحے

    یہ رات کب تک یہ چاند کب تک فلک پہ جلتے چراغ کب تک یہ بزم مے یہ نشاط کب تک اگر رہے بھی یہ سب جو قائم تو آدمی کی حیات کب تک چلو اندھیرے پکارتے ہیں چلو نصیبہ بلا رہا ہے ہمیں مقدر پکارتا ہے یہ سر یہ سینہ یہ دست و بازو یہ جسم سارا فگار ہے اب نہ لفظ و معنی نہ صوت و نغمہ یہ سارا دفتر اجڑ گیا ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا ساتھ

    ہر لمحہ بدلتی دنیا میں اک ساتھ تمہارا تھا لیکن وہ ساتھ کبھی کا چھوٹ گیا جب ساتھ تمہارا ہوگا تب بارش ہوگی اور پھول کھلیں گے راہوں میں اور دل میں پھر ہلچل ہوگی تب دنیا چاہے کتنی بدلے باہر ہو جتنا اندھیارا اندر سے کرنیں پھوٹیں گی اندر سے موسم بدلے گا

    مزید پڑھیے

    تم سے

    ایک آنچل ہے جو پھیلا ہے افق تا بہ افق ایک سایہ ہے جو چھایا ہے دل وحشی پر نغمگی ایک طرح پھوٹتی رہتی ہے کہیں خامشی رنگ لیے گھومتی رہتی ہے کہیں ڈھونڈھتا رہتا ہوں لہجوں میں کبھی ہاتھوں میں ڈھونڈھتا رہتا ہوں خوشبو میں کبھی چاندنی راتوں میں تجھے تجھ کو پاؤں تو بہت دل کو سکوں آئے گا تجھ ...

    مزید پڑھیے

    اجلے موسموں کے لوگ

    وہ اجلے موسموں کے لوگ اجلی چاندنی کا روپ لے کے دل کے آنگنوں میں پھر سے اک نئی امید دینے آ گئے انہیں کے ہاتھ اپنے دل کی کائنات اک نیا وجود پھر سے پا گئی وہ لوگ اجلے موسموں کے لوگ رہ نما و رہ نورد زرد زرد رات کو ذات کی کتاب کو ورق ورق تمام لکھنے آ گئے الٰہی یہ کتاب جس کے ہر ورق پہ ایک ...

    مزید پڑھیے