اجلے موسموں کے لوگ

وہ اجلے موسموں کے لوگ
اجلی چاندنی کا روپ
لے کے دل کے آنگنوں میں
پھر سے اک نئی امید دینے آ گئے
انہیں کے ہاتھ
اپنے دل کی کائنات
اک نیا وجود پھر سے پا گئی


وہ لوگ
اجلے موسموں کے لوگ
رہ نما و رہ نورد
زرد زرد رات کو
ذات کی کتاب کو
ورق ورق تمام لکھنے آ گئے
الٰہی یہ کتاب
جس کے ہر ورق پہ ایک خواب
یوں چمک رہا ہے جیسے آفتاب
تو کرے قبول تو ہو کامیاب


اور ہم اجلے موسموں کے ساتھ
اجلے دن کا انتظار کر سکیں
اک نئی کتاب لکھ سکیں