وقت کو ناپ لیں

وقت کو ناپ لیں
دیکھ لیں کس کے چہرے پہ پرچھائیں ہے شام کی


جیسے جیسے یہ شامیں گزرتی ہیں ہم
پل سے پل جھانکتے
اس ندی کے سرے کو گنواتے چلے جا رہے ہیں


عجب طرح لوگ
اپنے اپنے خیالوں کو جسموں میں بانٹے ہوئے ہیں
خیالوں کو جسموں میں بانٹوں کہ ڈھالوں