Sultan Subhani

سلطان سبحانی

سلطان سبحانی کی نظم

    لہو رنگ سیال روشن بھنور

    چٹانوں کے اندر بہت ساری پرتوں کے قلعوں فصیلوں کی تسخیر کرتی مری آنکھ جب اور آگے بڑھی تو وہاں آگ کے اک گرجتے سمندر سے لگ کر بہت ہی منور بہت خوبصورت سی دنیا کھڑی تھی ہزاروں چمکتے ہوئے رنگ کے ان گنت پتھروں نے مری آنکھ کا خیر مقدم کیا دھوئیں اور کہرے کی پرچھائیوں سے پرے آتش سنگ بے ...

    مزید پڑھیے

    سفید گھوڑے پر سوار اجنبی

    مرے مکاں کے سامنے وہ جوں ہی آیا یک بیک کوئی برق زن زناتی آنکھ میں اتر گئی لہو میں جیسے ان گنت کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹوں نے سب رگوں کے تار جھنجھنا دیے تمام کھڑکیوں کے پٹ ''کھٹاک'' سے بدن نے بند کر لیے مگر سفید گھوڑے پر سوار اجنبی کی آنکھ میرے گرد و پیش ایستادہ جسموں کی فصیل توڑ کر مرے ...

    مزید پڑھیے

    نیا حکم نامہ

    تغیر کا سیلاب آیا تو زنجیریں ساری اٹھا لے گیا شہنشاہیت کا سنہرا سمندر ہوا لے گئی اور سب کی نظر ایک کالے عمامے کی جانب پر امید ہو کر اٹھی سنا تھا کہ کالے عمامہ کے اندر نئے موسموں کے طلسمات خانوں کی سب کنجیاں ہیں مگر اس عمامہ کے اندر نیا حکم نامہ بہت خوبصورت سے خنجر سے لپٹا ہوا سو ...

    مزید پڑھیے

    اگر میں ہنس پڑوں

    منافقوں کے درمیاں گھرا ہوا میں ایک سچ ہوں ابر میں چمکتے چاند کی طرح میرے روبرو تمام وحشیوں کے رقص ان کی برہنہ ادائیں زہر میں نہائے خنجروں کی کہکشاں سجائے مجھ کو میرے اپنے عہد سے ہی کاٹ دینے کی لگن میں اس قدر قریب ہیں اگر میں ہنس پڑوں تو سارا رقص خنجروں میں ڈوب جائے

    مزید پڑھیے

    پت جھڑ کی ہوا

    پھر زور دکھا پت جھڑ کی ہوا آ میرے بدن کو چوم ذرا میں اک تازہ دھانی پتہ اس موسم میں ہر اک سے جدا تنہا تنہا ایک طنز کی صورت رخشندہ اور باقی سب منظر بھورا پت جھڑ کی ہوا! پت جھڑ کی ہوا آ مجھ کو بھی خاکستر کر یا مجھ سے مل کر اب تو بھی دھانی ہو جا

    مزید پڑھیے

    تجھ میں سب منظر محفوظ

    ننھے منے آنسو تیری عمر دراز تجھ میں ساری دنیا کا منظر محفوظ تو سارے لمحوں کا ساز تیرے اندر قوس قزح کے ساتوں رنگوں کے جھرنے جگمگ کرتے سورج چاند سبز سمندر دھانی موسم کی خوشبو ہاتھ پسارے کالے موسم کا جادو اور دہکتے انگاروں کے سرخ محل تو بازار، گھروں اور چوراہوں کا حاکم ممتا کی روشن ...

    مزید پڑھیے