Sultan Subhani

سلطان سبحانی

سلطان سبحانی کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے

    کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے مری ہی ذات تھی اس کائنات سے پہلے کچھ اتنا ظلم ہوا ہے کہ مجھ کو لگتا ہے کوئی بھی رات نہ گزری تھی رات سے پہلے اگر وہ چھوٹ گیا بات یہ نئی تو نہیں ملے تھے ہات بہت اس کے ہات سے پہلے ہوئے نہیں تھے کبھی اتنے آبرو والے کسی کے ساتھ نہ تھے اس کے سات سے ...

    مزید پڑھیے

    تیری یاد میں روتے روتے تجھ جیسا ہو جائے گا

    تیری یاد میں روتے روتے تجھ جیسا ہو جائے گا ہو سکتا ہے اپنا دل بھی کل پتھر کہلائے گا اور نہیں تو ترک وفا پر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کچھ ہم بھی شرمندہ ہوں گے کچھ وہ بھی پچھتائے گا تجھ کو بھلا کر جی سکتے ہیں لیکن اتنا یاد رہے تجھ سا جو بھی مکھڑا ہوگا آنکھوں میں بس جائے گا پیار سے نفرت ...

    مزید پڑھیے

    جہاں دار جتنی بھی سازش کرے گا

    جہاں دار جتنی بھی سازش کرے گا خدا ہم پہ رحمت کی بارش کرے گا یہ شیشے کی آنکھیں یہ پتھر کے چہرے مرا درد کس سے گزارش کرے گا کسی کا جو ہمدرد ہوگا زمیں پر بہت گر کرے تو سفارش کرے گا عجب چیز ہے یہ ہنر کا خزانہ نہ جس کو ملے وہ نمائش کرے گا غزل جو بھی دیکھے گا سلطانؔ صاحب کہانی کی وہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی تک سانس لمحے بن رہی ہے

    ابھی تک سانس لمحے بن رہی ہے سمندر سے پرانی دوستی ہے یہ جو آنکھوں میں اک دنیا کھڑی ہے اسی میں کچھ حقیقت رہ گئی ہے نہیں پہچانا اس نے جب سے مجھ کو زمیں کچھ اجنبی سی لگ رہی ہے ہوا مجھ سے بہت ہی بد گماں ہے مگر مجھ سے ہی لگ کر چل رہی ہے اسی کو اپنا سرمایہ سمجھ لو اگر کچھ آس باقی رہ گئی ...

    مزید پڑھیے

    وہ آج مجھ سے جب ملی تو دھند چھٹ گئی

    وہ آج مجھ سے جب ملی تو دھند چھٹ گئی مگر نہ جانے کیا ہوا زمیں ہی پھٹ گئی وہ لمحہ ایک چاند تھا مہکتی رات کا وہ چاند بجھ سکا نہ تھا کہ رات کٹ گئی بیاض درد جب کھلی تو دل ہنسا مگر گزشتہ عہد کی ہوا ورق الٹ گئی ہمارا ایسا دور بھی رہا کہ ہر گلی جدھر سے ہم گزر گئے سمٹ سمٹ گئی تمام خشک جسم ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    لہو رنگ سیال روشن بھنور

    چٹانوں کے اندر بہت ساری پرتوں کے قلعوں فصیلوں کی تسخیر کرتی مری آنکھ جب اور آگے بڑھی تو وہاں آگ کے اک گرجتے سمندر سے لگ کر بہت ہی منور بہت خوبصورت سی دنیا کھڑی تھی ہزاروں چمکتے ہوئے رنگ کے ان گنت پتھروں نے مری آنکھ کا خیر مقدم کیا دھوئیں اور کہرے کی پرچھائیوں سے پرے آتش سنگ بے ...

    مزید پڑھیے

    سفید گھوڑے پر سوار اجنبی

    مرے مکاں کے سامنے وہ جوں ہی آیا یک بیک کوئی برق زن زناتی آنکھ میں اتر گئی لہو میں جیسے ان گنت کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹوں نے سب رگوں کے تار جھنجھنا دیے تمام کھڑکیوں کے پٹ ''کھٹاک'' سے بدن نے بند کر لیے مگر سفید گھوڑے پر سوار اجنبی کی آنکھ میرے گرد و پیش ایستادہ جسموں کی فصیل توڑ کر مرے ...

    مزید پڑھیے

    نیا حکم نامہ

    تغیر کا سیلاب آیا تو زنجیریں ساری اٹھا لے گیا شہنشاہیت کا سنہرا سمندر ہوا لے گئی اور سب کی نظر ایک کالے عمامے کی جانب پر امید ہو کر اٹھی سنا تھا کہ کالے عمامہ کے اندر نئے موسموں کے طلسمات خانوں کی سب کنجیاں ہیں مگر اس عمامہ کے اندر نیا حکم نامہ بہت خوبصورت سے خنجر سے لپٹا ہوا سو ...

    مزید پڑھیے

    اگر میں ہنس پڑوں

    منافقوں کے درمیاں گھرا ہوا میں ایک سچ ہوں ابر میں چمکتے چاند کی طرح میرے روبرو تمام وحشیوں کے رقص ان کی برہنہ ادائیں زہر میں نہائے خنجروں کی کہکشاں سجائے مجھ کو میرے اپنے عہد سے ہی کاٹ دینے کی لگن میں اس قدر قریب ہیں اگر میں ہنس پڑوں تو سارا رقص خنجروں میں ڈوب جائے

    مزید پڑھیے

    پت جھڑ کی ہوا

    پھر زور دکھا پت جھڑ کی ہوا آ میرے بدن کو چوم ذرا میں اک تازہ دھانی پتہ اس موسم میں ہر اک سے جدا تنہا تنہا ایک طنز کی صورت رخشندہ اور باقی سب منظر بھورا پت جھڑ کی ہوا! پت جھڑ کی ہوا آ مجھ کو بھی خاکستر کر یا مجھ سے مل کر اب تو بھی دھانی ہو جا

    مزید پڑھیے

تمام