Suhail Ahmad Khan

سہیل احمد خان

سہیل احمد خان کی غزل

    دور سے ہم کو لگا تھا بے زباں آب رواں

    دور سے ہم کو لگا تھا بے زباں آب رواں اگلے ہی پل تھا صداؤں کا جہاں آب رواں اک سہانی شام کے رنگوں کے گھیرے میں کہیں میں مری تنہائی یاد رفتگاں آب رواں شاخ سے پھولوں کو کھینچا ان کے اپنے عکس نے جانے اب لے جائے گا ان کو کہاں آب رواں میں بھی راہی ہوں مجھے اپنے سفر کا راز دے کس کی خاطر ...

    مزید پڑھیے

    یوں اپنے ایک خواب میں گم ہو گیا تھا میں

    یوں اپنے ایک خواب میں گم ہو گیا تھا میں نکلی ہوئی تھی دھوپ مگر سو رہا تھا میں کوئی مقام نیند کے باغوں میں تھا کہیں ٹھنڈی ہواؤں میں وہاں دو پل رکا تھا میں کچھ اجنبی مکان تھے کچھ اجنبی مکیں آنکھیں تھیں بند پھر یہ کہاں جھانکتا تھا میں اک سمت چاندنی تھی تو اک سمت دھوپ تھی جیسے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کر چکے نوحے بہت گزرے زمانے کے لئے

    کر چکے نوحے بہت گزرے زمانے کے لئے کچھ نئے شہروں کے دکھ بھی ہیں سنانے کے لئے اس طرح تیزی سے بھاگا جا رہا ہے ہر کوئی جیسے چھپنا ہو کہیں خود کو بچانے کے لئے ایک لمحے کے لئے بھی خود سے ہم نہ مل سکے زندگی تھی شہر والوں کو دکھانے کے لئے تھی خبر سستی ملے گی آج نفرت اس جگہ خلق ٹوٹی ہے ...

    مزید پڑھیے

    لرز لرز تو گیا اک چراغ نیم شبی

    لرز لرز تو گیا اک چراغ نیم شبی مگر سنبھل کے جلا اک چراغ نیم شبی سبھی دلوں میں عجب خوف تھا اندھیرے کا مگر ذرا نہ ڈرا اک چراغ نیم شبی میں سوچتا تھا اکیلا ہی جل رہا ہوں یہاں مرا رفیق ہوا اک چراغ نیم شبی نہ جانے کہنا تھا کیا اس نے سونے والوں سے پکارتا ہی رہا اک چراغ نیم شبی تپش حروف ...

    مزید پڑھیے