دور سے ہم کو لگا تھا بے زباں آب رواں
دور سے ہم کو لگا تھا بے زباں آب رواں اگلے ہی پل تھا صداؤں کا جہاں آب رواں اک سہانی شام کے رنگوں کے گھیرے میں کہیں میں مری تنہائی یاد رفتگاں آب رواں شاخ سے پھولوں کو کھینچا ان کے اپنے عکس نے جانے اب لے جائے گا ان کو کہاں آب رواں میں بھی راہی ہوں مجھے اپنے سفر کا راز دے کس کی خاطر ...