اس کو میرا ملال ہے اب بھی
اس کو میرا ملال ہے اب بھی چلیے کچھ تو خیال ہے اب بھی روز یادوں کی تہہ بناتا ہے اس کا جینا محال ہے اب بھی تم نے اتر بدل دئے ہر بار میرا وہ ہی سوال ہے اب بھی جس نے دشمن سمجھ لیا ہے ہمیں اس سے ملنا وصال ہے اب بھی دفن ہو کر بھی سانس باقی ہے کوئی رشتہ بحال ہے اب بھی