غازہ تو ترا اتر گیا تھا
غازہ تو ترا اتر گیا تھا میں دیکھ کے خود کو ڈر گیا تھا اس شہر میں راستے کا پتھر میں جنگلوں سے گزر گیا تھا تحریر جبیں مٹی ہوئی تھی تقدیر کا زخم بھر گیا تھا بے نور تھی جھیل بھی کنول سے سورج بھی خلا میں مر گیا تھا احساس شباب غم محبت ایک ایک نشہ اتر گیا تھا دل کو وہ سکوں ملا ترے ...