Siddique Afghani

صدیق افغانی

صدیق افغانی کی غزل

    غازہ تو ترا اتر گیا تھا

    غازہ تو ترا اتر گیا تھا میں دیکھ کے خود کو ڈر گیا تھا اس شہر میں راستے کا پتھر میں جنگلوں سے گزر گیا تھا تحریر جبیں مٹی ہوئی تھی تقدیر کا زخم بھر گیا تھا بے نور تھی جھیل بھی کنول سے سورج بھی خلا میں مر گیا تھا احساس شباب غم محبت ایک ایک نشہ اتر گیا تھا دل کو وہ سکوں ملا ترے ...

    مزید پڑھیے

    شہر احساس میں زخموں کے خریدار بہت

    شہر احساس میں زخموں کے خریدار بہت ہاتھ میں سنگ اٹھا شیشوں کے بازار بہت کوئی کھڑکی ہے سلامت نہ کوئی دروازہ میرے گھر کے سبھی کمرے ہیں ہوا دار بہت ہاتھ تھکتے نہیں رنگوں کے ہیولے بن کر اہل فن کو سر کاغذ خط پر کار بہت دشت میں بھی وہی آثار ہیں آبادی کے پھیلتا جاتا ہے اب سایۂ دیوار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2