سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا
سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا ہیولیٰ کہر کے اندر چھپا تھا مکاں جسموں کی خوشبو سے تھا خالی مگر سایوں سے آنگن بھر گیا تھا جلی حدت سے نم آلود مٹی کوئی سورج زمیں میں دھنس گیا تھا خموشی کی گھٹن سے چیخ اٹھا مرا گنبد بھی صحرا کی صدا تھا ابھر آئی تھی دریاؤں میں خشکی مگر ڈھلوان پر پانی ...