Siddique Afghani

صدیق افغانی

صدیق افغانی کی غزل

    سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا

    سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا ہیولیٰ کہر کے اندر چھپا تھا مکاں جسموں کی خوشبو سے تھا خالی مگر سایوں سے آنگن بھر گیا تھا جلی حدت سے نم آلود مٹی کوئی سورج زمیں میں دھنس گیا تھا خموشی کی گھٹن سے چیخ اٹھا مرا گنبد بھی صحرا کی صدا تھا ابھر آئی تھی دریاؤں میں خشکی مگر ڈھلوان پر پانی ...

    مزید پڑھیے

    لے اڑے خاک بھی صحرا کے پرستار مری

    لے اڑے خاک بھی صحرا کے پرستار مری راہ تکتے ہی رہے شہر کے بازار مری تیز آندھی نے کئے مجھ پہ بلا کے حملے پھر بھی قائم رہی مٹی کی یہ دیوار مری چھپ گیا تھا مرے جنگل میں کوئی سایہ سا آج تک اس کے تعاقب میں ہے تلوار مری گونج ابھرے گی مری روح کے سناٹوں سے سلب ہو جائے گی جب طاقت گفتار ...

    مزید پڑھیے

    جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا

    جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا تاریک شب کے سینے میں خنجر اتر گیا جب سب پہ بند تھے مری آنکھوں کے راستے پھر کیسے کوئی جسم کے اندر اتر گیا ساحل پہ ڈر گیا تھا میں لہروں کو دیکھ کر جب غوطہ زن ہوا تو سمندر اتر گیا اک بھی لکیر ہاتھ پہ باقی نہیں رہی دست طلب سے نقش مقدر اتر گیا وہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند کہ پیارا تھا میں سورج کی نظر کا

    ہر چند کہ پیارا تھا میں سورج کی نظر کا پھر بھی مجھے کھٹکا ہی رہا شب کے سفر کا الجھی ہے بہت جسم سے دریا کی روانی اس چوبی محل کا کوئی تختہ بھی نہ سر کا ڈوبا ہوا ایوان شفق بھی ہے دھوئیں میں بے رنگ سا ہر نقش ہے دیوار سحر کا رستے ہوئے ناسور پہ چلتے رہے نشتر تازہ ہی رہا پھول سدا زخم ہنر ...

    مزید پڑھیے

    جھونکا نفس کا موجۂ صرصر لگا مجھے

    جھونکا نفس کا موجۂ صرصر لگا مجھے رات آ گئی تو خود سے بڑا ڈر لگا مجھے اتنا گداز ہے مرا دل فرط درد سے پھینکا کسی نے پھول تو پتھر لگا مجھے خود ہی ابھر کے ڈوب گیا اپنی ذات میں سورج اک اضطراب کا پیکر لگا مجھے یہ شام وعدہ ہے کہ پڑاؤ ہے وقت کا اک لمحہ اک صدی کے برابر لگا مجھے جیسے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہوائے عشق میں شامل ہوس کی لو ہی رہی

    ہوائے عشق میں شامل ہوس کی لو ہی رہی بڑھا بھی ربط تو بے ربط گفتگو ہی رہی نہ آئی ہاتھ میں تتلی گداز خوشبو کی گل بدن کی مہک میرے چار سو ہی رہی وہ دشت دشت سی آنکھیں چمن چمن چہرہ سراب خوف کی اک لہر روبرو ہی رہی طلوع افق پہ ہے اب تک وہی ستارۂ باد میں بھول جاؤں اسے دل میں آرزو ہی ...

    مزید پڑھیے

    بوالہوس میں بھی نہ تھا وہ بت بھی ہرجائی نہ تھا

    بوالہوس میں بھی نہ تھا وہ بت بھی ہرجائی نہ تھا پھر بھی ہم بہروپیوں کو خوف رسوائی نہ تھا آندھیوں نے سب مٹا ڈالے نقوش‌‌ رہ گزار ریت کے سینے پہ داغ آبلہ پائی نہ تھا رات کے کالے کنوئیں میں چھپ گیا سایہ مرا اس سے پہلے تو کبھی یہ رنگ‌ تنہائی نہ تھا وہم کا پیکر تھا آویزاں در و دیوار ...

    مزید پڑھیے

    جب کھلے مٹھی تو سب پڑھ لیں خط تقدیر کو

    جب کھلے مٹھی تو سب پڑھ لیں خط تقدیر کو جی میں آتا ہے مٹا دوں ہاتھ کی تحریر کو جسم سناٹے کے عالم سے گزرتا ہی نہیں بے حسی نے اور اور بوجھل کر دیا زنجیر کو بہتا دریا ہے کہ آئینہ گری کا سلسلہ دیکھتا رہتا ہوں پانی میں تری تصویر کو صبح نو نے کاٹ ڈالے شام‌ ظلمت کے حصار کس طرح روکے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا چلی تو پسینہ رگوں میں بیٹھ گیا

    ہوا چلی تو پسینہ رگوں میں بیٹھ گیا نمی کا زہر شجر کی جڑوں میں بیٹھ گیا اداس کیوں نہ ہوں اب تیرے قرب کی صبحیں شب فراق کا ڈر سا دلوں میں بیٹھ گیا ابھی فضاؤں میں برق صدا ہی کوندی تھی زمانہ خوف کے مارے گھروں میں بیٹھ گیا نہ کام آ سکی اعضا کی چار دیواری مکاں بدن کا زمیں کی تہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    آ رہی تھی بند کلیوں کے چٹکنے کی صدا

    آ رہی تھی بند کلیوں کے چٹکنے کی صدا میں سراپا گوش ہو کر رات بھر سنتا رہا بہہ گیا ظلمات کے سیلاب میں ایوان سنگ دھوپ جب نکلی تمازت سے سمندر جل اٹھا جب رگ و پے میں سرایت کر رہا تھا زہر حبس روزن دیوار سے مجھ پر ہنسی ٹھنڈی ہوا سبز کھیتوں سے کوئی صحرا میں لے جائے مجھے میں ہرے سورج کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2