Siddiq Shahid

صدیق شاہد

صدیق شاہد کی غزل

    کچھ ایسی ٹوٹ کے شہر جنوں کی یاد آئی

    کچھ ایسی ٹوٹ کے شہر جنوں کی یاد آئی دہائی دینے لگی آج میری تنہائی گلے ملی ہیں کئی آ کے دل ربا یادیں کہیں یہ ہو نہ تری شکل یاد فرمائی کچھ اس قدر تھے سہم ناک حادثات حیات کہ تاب دید نہ رکھتی تھی میری بینائی سیہ کیے ہیں ورق میں نے اس توقع پر کبھی تو ہوگی مرے درد کی پذیرائی بدن سے ...

    مزید پڑھیے

    فغان روح کوئی کس طرح سنائے اسے

    فغان روح کوئی کس طرح سنائے اسے کہ زخم زخم بدن تو نظر نہ آئے اسے نہ دیکھنے کی سزا وار جس کو آنکھ ہوئی کوئی پیاسا بھلا ہاتھ کیا لگائے اسے سرور لذت حاصل کا کچھ سوا ہوگا چلن عطا کا اگر خسروانہ آئے اسے مرے لہو میں اتر آئیں گے نئے موسم چنی ہے دل میں جو دیوار سی وہ ڈھائے اسے کھلا نہ اس ...

    مزید پڑھیے

    ہوں کس مقام پہ دل میں ترے خبر نہ لگے

    ہوں کس مقام پہ دل میں ترے خبر نہ لگے ترے سلیقۂ گفتار کو نظر نہ لگے گھرا ہوا تھا تو کچھ ناگوار لوگوں میں ملال یہ ہے کہ اس وقت ہم کو پر نہ لگے اسیر قریۂ وحشت ہوں ایک مدت سے خرد کی راہ کسی طور معتبر نہ لگے مکاں وہی ہے پر اس کا مکین کیا اٹھا سحر بھی ہو تو وہ پہلی سی اب سحر نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2