Siddiq Shahid

صدیق شاہد

صدیق شاہد کی غزل

    نکال لایا ہے گھر سے خیال کا کیا ہو

    نکال لایا ہے گھر سے خیال کا کیا ہو لگا ہے زخم تو اب اندمال کا کیا ہو لے آئے کوچہ دلبر سے دل کو سمجھا کر ہے بے قرار بہت دیکھ بھال کا کیا ہو لٹا کے ماضی نظر اس صدی پہ رکھی ہے پہ نقشہ دیکھیے تحصیل حال کا کیا ہو ابھی زمانۂ موجود کی گرفت میں ہوں میں سوچتا ہوں کہ فکر مآل کا کیا ہو تھا ...

    مزید پڑھیے

    آگ کو پھول کہے جائیں خردمند اپنے

    آگ کو پھول کہے جائیں خردمند اپنے اور آنکھوں پہ رکھیں دید کے در بند اپنے لاکھ چاہا کہ غم و فکر جہاں سے چھوٹیں جامۂ دل پہ یہ سجتے رہے پیوند اپنے شہر میں دھوم مچاتی رہی کیا تازہ ہوا ہم نے در وا نہ کیا ہم ہیں گلہ مند اپنے سطح قرطاس پہ اترے نہ تری گل بدنی کتنے عاجز ہوئے جاتے ہیں ہنر ...

    مزید پڑھیے

    کار مشکل ہی کیا دنیا میں گر میں نے کیا

    کار مشکل ہی کیا دنیا میں گر میں نے کیا پر نہ اس بے رحم کے دل میں گزر میں نے کیا دل میں لیلائے تمنا پاؤں چھلنی تیز دھوپ کس قیامت کا سفر تھا جو سفر میں نے کیا تیرا اپنا راستہ تھا میرا اپنا راستہ اس پہ بھی اے زندگی تجھ کو بسر میں نے کیا مسکرا کر اس نے جب باہیں گلے میں ڈال دیں پھر جو ...

    مزید پڑھیے

    فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہو

    فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہو بغیر اس کے بھی شاید زندگی ہم کو گوارا ہو نکل آئے جو ہم گھر سے تو سو رستے نکل آئے عبث تھا سوچنا گھر میں کوئی غیبی اشارہ ہو نہ اس ڈھب کی بھی ظلمت ہو کہ سب مل کر دعا مانگیں کوئی جگنو ہی آ نکلے نہ گر کوئی ستارہ ہو زیاں کی زد پہ دنیا میں کئی لوگ ...

    مزید پڑھیے

    نہ دیکھا جامۂ خود رفتگی اتار کے بھی

    نہ دیکھا جامۂ خود رفتگی اتار کے بھی چلی گئیں تری یادیں مجھے پکار کے بھی یہ زندگی ہے اسے تلخ ترش ہونا ہے صعوبتوں کے ذرا دیکھ دن گزار کے بھی حباب زیست نہ دست قضا سے ٹوٹ سکا حیات باقی رہی قبر میں اتار کے بھی ترے غرور کے ہے روبرو یہ خوش شکنی جھکا کے سر نہ ہوئے پیش شہریار کے بھی بدی ...

    مزید پڑھیے

    دل کی بستی پہ کسی درد کا سایہ بھی نہیں

    دل کی بستی پہ کسی درد کا سایہ بھی نہیں ایسا ویرانی کا موسم کبھی آیا بھی نہیں ہم کسی اور ہی عالم میں رہا کرتے ہیں اہل دنیا نے جہاں آکے ستایا بھی نہیں ہم پہ اس عالم تازہ میں گزرتی کیا ہے تم نے پوچھا بھی نہیں ہم نے بتایا بھی نہیں کب سے ہوں غرق کسی جھیل کی گہرائی میں راز ایام مگر عقل ...

    مزید پڑھیے

    شوق آوارہ یوں ہی خاک بسر جائے گا

    شوق آوارہ یوں ہی خاک بسر جائے گا چاند چپکے سے کسی گھر میں اتر جائے گا اس کی صحبت بھی ہے اک خواب سرا میں رہنا وہ جو چل دے گا تو یہ خواب بکھر جائے گا وقت ہر زخم کا مرہم ہے پہ لازم تو نہیں زخم جو اس نے دیا ہے کبھی بھر جائے گا جنس تازہ کے خریدار پڑے ہیں ہر سو کیسے بے کار مرا حرف ہنر ...

    مزید پڑھیے

    چلتے چلتے چلے آئے ہیں پریشانی میں

    چلتے چلتے چلے آئے ہیں پریشانی میں خواب تو دب چکے اس کوچے کی ویرانی میں توڑ کر پاؤں پڑے ہیں کہ وہ ہمت نہ رہی اڑتے بادل تھے کبھی چاک گریبانی میں ہجر کی راہ میں چلتے رہے گرتے پڑتے ساتھ کچھ بھی نہ لیا بے سر و سامانی میں اس شہنشاہ کو میں کیسے شہنشاہ کہوں سرحدیں ٹوٹتی ہوں جس کی جہاں ...

    مزید پڑھیے

    شہر صحرا ہے گھر بیاباں ہے

    شہر صحرا ہے گھر بیاباں ہے دل کسی انجمن کا خواہاں ہے مجھ سے کہتی ہیں وہ اداس آنکھیں زندگی بھر کی سب تھکن یاں ہے خواب ٹوٹے پڑے ہیں سب میرے میں ہوں اور حیرتوں کا ساماں ہے ہر مسرت گندھی ہوئی دکھ میں ارض اضداد دشت امکاں ہے تو سمندر کی بے کناری دیکھ اس میں معیار ظرف پنہاں ہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ روز و شب کا تسلسل رواں دواں ہی رہا

    یہ روز و شب کا تسلسل رواں دواں ہی رہا یہ غم رسیدوں کی تقدیر میں زیاں ہی رہا تری زباں تھی مرے واسطے پہ دل کہیں اور تری روش کا یہ انداز درمیاں ہی رہا اٹھائے پھرتے رہے ہم یہ درد کی گٹھری مگر یہ درد محبت کہ بے اماں ہی رہا جب آئی رات امنڈ آئے یاد کے جگنو پھر اس کے بعد تو اک جشن کا سماں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2