نکال لایا ہے گھر سے خیال کا کیا ہو
نکال لایا ہے گھر سے خیال کا کیا ہو لگا ہے زخم تو اب اندمال کا کیا ہو لے آئے کوچہ دلبر سے دل کو سمجھا کر ہے بے قرار بہت دیکھ بھال کا کیا ہو لٹا کے ماضی نظر اس صدی پہ رکھی ہے پہ نقشہ دیکھیے تحصیل حال کا کیا ہو ابھی زمانۂ موجود کی گرفت میں ہوں میں سوچتا ہوں کہ فکر مآل کا کیا ہو تھا ...