گمشدہ خیال کا تذکرہ
بھڑک بھڑک کے صداؤں نے رہ دکھائی مجھے ہزار سنگ سفر ہم سفر بنے بگڑے یہ آرزو ہے کہ خواہش کا کوئی پھل نہ گرے مسافرت کے سمندر میں سب کو تنہا کروں وہ مجھ سے چھپتا پھرے اور میں اس کو دیکھا کروں نمائش غم صحرا میں اس پہ سایا کروں بہ رنگ خواب رکے پانیوں کو چکھا کروں پرائے باغوں پہ ابر رواں ...