گمشدہ خیال کا تذکرہ
بھڑک بھڑک کے صداؤں نے رہ دکھائی مجھے
ہزار سنگ سفر ہم سفر بنے بگڑے
یہ آرزو ہے کہ خواہش کا کوئی پھل نہ گرے
مسافرت کے سمندر میں سب کو تنہا کروں
وہ مجھ سے چھپتا پھرے اور میں اس کو دیکھا کروں
نمائش غم صحرا میں اس پہ سایا کروں
بہ رنگ خواب رکے پانیوں کو چکھا کروں
پرائے باغوں پہ ابر رواں کا سایہ رہے
کھلا ہو صحن ہوا خواہشوں کی بات سنے
ادھڑتا رنگ مہکتے گلوں میں خون بھرے
جسے میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے کوئی نہ ملے
یہ ایک لمحہ ٹھہر جائے ختم رات نہ ہو
سفر سے لوٹوں تو کوئی بھی میرے سات نہ ہو