Shorish kashmiri

شورش کاشمیری

شورش کاشمیری کی نظم

    ہجر و وصال

    خود اپنے دل کا خون فضا میں اچھال کے مضموں لکھے ہیں ہم نے فراق و وصال کے کچھ سانحوں کی یاد ہے عنوان روز و شب کچھ حادثے ہیں نوک زباں ماہ و سال کے اک ناتمام درد شریک چمن رہا شاخوں پہ کونپلوں کی نقابیں اجال کے صحن حرم سے انجمن مے فروش تک دو گام فاصلہ ہے ذرا دیکھ بھال کے پچھتا رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اقبال سے ہم کلامی

    کل اذان صبح سے پہلے فضائے قدس میں میں نے دیکھا کچھ شناسا صورتیں ہیں ہم نشیں تھے حکیم شرق سے شیخ مجدد ہم کلام گوش بر آواز سب دانش وران علم و دیں بوالکلام آزاد سے غالبؔ تھے مصروف سخن میرؔ و مومنؔ دور حاضر کی غزل پہ نکتہ چیں اس سے کچھ ہٹ کر گلابی شاخچوں کی چھاؤں میں تھے ولی اللہ کے ...

    مزید پڑھیے

    خطیب اعظم (سید عطاء اللہ شاہ بخاری)۔

    خطیب اعظم عرب کا نغمہ عجم کی لے میں سنا رہا ہے سر چمن چہچہا رہا ہے سر وغا مسکرا رہا ہے حدیث سرو و سمن نچھاور زبان شمشیر اس پہ قرباں مسیلمہ ایسے جعل سازوں کی بیخ و بنیاد ڈھا رہا ہے قرون اولی کی رزم گاہوں سے مرتضیٰ کا جلال لے کر دبیز نیندیں جھنجھوڑتا ہے مجاہدوں کو جگا رہا ہے ہیں اس ...

    مزید پڑھیے

    ذرا صبر!

    اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے برق خود اپنی تجلی کی محافظ ہوگی! پھول خود اپنی لطافت کے گریباں ہوں گے نغمہ و شعر کا سیلاب امڈ آئے گا وقت کے سحر سے غنچے بھی غزل خواں ہوں گے ناؤ منجدھار سے بے خوف و خطر کھیلے گی ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    معلوم نہیں کیوں

    یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں اب خون کے دھبے ہیں مدیروں کی قبا پر خامہ دم صمصام ہے معلوم نہیں کیوں خون رگ ...

    مزید پڑھیے

    کھیل

    یارب ترے بندوں سے قضا کھیل رہی ہے اک کھیل بعنوان دغا کھیل رہی ہے جس کھیل کو صرصر نے بھی کھیلا نہ چمن میں اس کھیل کو اب باد صبا کھیل رہی ہے الجھے ہوئے حالات کے تیور ہیں خطرناک بدلے ہوئے موسم کی ہوا کھیل رہی ہے رندان تہی دست سزاوار سبو ہیں! ٹوٹی ہوئی توبہ سے گھٹا کھیل رہی ہے لغزیدہ ...

    مزید پڑھیے